امریکی میڈیا کا ماتم

امریکی اخبارات وجرائد کے مدیروں کی تنظیم سیاسی اعتبار سے بہت بااثر اور مالی حوالوں سے کافی طاقت ور ہے۔ 1980ءکی دہائی شروع ہوئی تو اس تنظیم کے کرتا دھرتا اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ امریکی اخبارات اپنے ملک کے بارے میں بقیہ دُنیا کے ذہنوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بالآخر اس دہائی کے وسط میں فیصلہ ہوا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے شہرہ¿ آفاق فلیچر سکول آف لاءاینڈ ڈپلومیسی کی معاونت سے غیر ملکی صحافیوں کے لئے مذاکروں اور مطالعاتی دوروں کا ہتمام کیا جائے۔ تین ماہ تک پھیلے اس پروگرام کے ذریعے ہر سال دُنیا کے کم از کم 10ملکوں سے نوجوان صحافیوں کو امریکہ بلاکر ہارورڈ یونیورسٹی میں 2ہفتوں کی ورکشاپس کے بعد واشنگٹن میں اہم سرکاری حکام سے ملوایا جاتا۔ ان ملاقاتوں کے بعد اس پروگرام کے شرکاءایک دوسرے سے جدا ہوکر پورے ایک ماہ تک کسی معروف اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر وہاں خبروں کی تلاش، انہیں لکھنے اور پیش کرنے کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ 1986ءمیں مجھے بھی اس پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا۔
افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان ان دنوں امریکی حکومت اور میڈیا کے لئے بہت اہم گردانا جاتا تھا۔ سوویت یونین کی فوج مجاہدین کے ہاتھوں زچ ہوکر واپسی کا محفوظ راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کی بدولت قائم ہوئی جونیجو حکومت اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام جنیوا میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے یہ راستہ فراہم کرنے کو تیار تھی۔ جنرل ضیاءاور آئی ایس آئی ایسے کسی بندوبست کے لئے تیار نہیں تھے۔ مجھے گماں تھا کہ جمہوری نظام کے اپنے تئیں پاسبان بنے امریکہ میں جونیجو حکومت کے خیالات کی بھرپور حمایت میسر ہو گی۔
میرے امریکہ پہنچنے کے پہلے دس دنوں میں لیکن واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں سنسنی خیز انکشافات کے ذریعے افغان مجاہدین کو طاقت ور بنانے کے لئے سی آئی اے کے کردار کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ ان خبروں کا مقصد سی آئی اے کی مداح سرائی تک محدود نہ رہا۔ بہت مہارت سے دنیا کو بلکہ یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان خواہ مخواہ افغانستان کا ”ماما“ بن رہا ہے۔ اس نے افغان جہاد کے نام پر ملی رقوم اور اسلحے کو اپنے پسندیدہ گروہوں پر صرف کیا۔ امریکہ کے ساتھ ”ہاتھ ہوگیا“ اور اب پاکستان امریکہ کو پوری طرح اعتماد میں لئے بغیر ازخود روس کو واپسی کا محفوظ راستہ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ایسی خبروں کے ذریعے سی آئی اے نہ صرف پاکستان بلکہ وہاں ایک عرصے کی جدوجہد کے بعد قائم ہوئی جمہوری حکومت کو بھی مستحکم ہوتا نہیں دیکھنا چاہ رہی۔
”واشنگٹن پوسٹ“ کے دفتر گئے تو اس کے ایڈیٹر سے ملاقات کے دوران میں نے سخت الفاظ میں کئے سوالات کے ذریعے جاننا چاہا کہ امریکی صحافی سی آئی اے کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ دفاعی اندازاختیار کرنے یا شرمندہ ہونے کی بجائے وہاں کے مدیر نے بڑے خشک انداز میں جواب دیا کہ اسے اس بات سے غرض نہیں کہ اس کے اخبار میں چھپی خبر سی آئی اے یا کسی دوسرے ادارے کے مفادات کی خاطر پاکستان جیسے ملکوں کو بدنام کررہی ہے۔ اسے صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ رپورٹرکو فراہم کیا مواد مصدقہ ہے یا نہیں۔
1986ءکی آخری سہ ماہی کے آغاز میں ادا ہوا یہ فقرہ مجھے ان دنوں بارہا یاد آرہا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات یکسو ہوکر اپنے ”تفتیشی رپورٹروں“ کے ذریعے قارئین کو مسلسل بتاے چلے جارہے ہیں کہ روس کے صدر پیوٹن کے جاسوسی ادارے نے ہیلری کلنٹن کو ”ہروانے“ کے لئے کونسے ہتھکنڈے اختیار کئے۔ اس ضمن میں اہم ترین بات ہیلری کی انتخابی مہم چلانے والوں کے ای میل اکاﺅنٹس کی Hackingتھی۔ اس کے ذریعے ہیلری کی انتخابی مہم کے دوران اپنائی حکمت عملی کے حوالوں سے ہوئی خط وکتابت اور بحث مباحثے طشت از بام کردئیے گئے۔ کئی افراد کی ذاتی زندگی سے متعلق شرمندہ کردینے والی تفصیلات بھی منظرعام پر آئیں۔
تاثر یہ بنایا جارہا ہے کہ روسی صدر نے ٹرمپ کو جتوانے کے لئے ایک جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ اس حکمت عملی نے نہ صرف امریکی عوام کی اکثریت کو ”گمراہ“ کیا بلکہ یہ بات بھی عیاں کردی کہ امریکہ اب ایک محفوظ اور طاقت ور ملک نہیں رہا کیونکہ اس کے ریاستی اور دفاعی اداروں میں جمع ہوئی معلومات خفیہ نہیں رہیں۔
ذاتی طورپر میں اس سوچ سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا کہ ٹرمپ صرف ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم سے جڑی تفصیلات کے طشت ازبام ہونے کی وجہ سے جیتا۔ اس کی جیت کا اصل سبب گوری اکثریت کے دلوں میں کئی دہائیوں سے اشرافیہ کے خلاف اُبلتا غصہ اور تارکین وطن کے خلاف موجود تعصبات تھے۔ انٹرنیٹ سے جڑی ٹیکنالوجی پر امریکہ کی اجارہ داری اب بھی مسلم ہے۔ Appleکے آئی فون کے ذریعے ہوئی گفتگو یا Messageکو دُنیا کا کوئی جاسوسی ادارہ ابھی تک Hackکرنے کے قابل نہیں ہوا۔ Androidٹیکنالوجی والے ٹیلی فونوں پرWhatsapp کے ذریعے ہوئی گفتگو اور خط و کتابت تک رسائی اب ناممکن تو نہیں رہی مگر بہت مشکل ہوچکی ہے۔ امریکی میڈیا مگر ”لٹ گئے“ والا ماتم کئے چلے جارہا ہے۔ اس ماتم کی وجہ سے صدر اوبامہ کو دو سے زائد مرتبہ اپنے عوام کو یقین دلانا پڑا ہے کہ روس امریکہ کے ریاستی اور دفاعی اداروں میں محفوظ رازوں تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوا۔ امریکہ کسی جوابی کارروائی کے ذریعے کسی بھی وقت روس کے کمیونی کیشن سسٹم کی کمزوریاں دنیا کے سامنے لاکر اسے کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی اخبارات مگر مطمئن ہو کر نہیں دے رہے۔ ان کی دہائی کا اصل مقصد دُنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ ہیلری کی جیت کا یقین دلاتے ہوئے وہ بے خبر نہ تھے۔ ان کے اندازوں کو مگر روس نے انٹرنیٹ جارحیت کے ذریعے غلط ثابت کیا۔ ٹرمپ کو صدارتی منصب سنبھالنے سے قبل ہی پیوٹن کا ایک حوالے سے ”ایجنٹ“ ثابت کیا جا رہا ہے۔ نومنتخب صدر مگر ایک ڈھیٹ اور ضدی آدمی ہے۔ سی آئی اے کو یاد دلارہا ہے کہ اس نے صدام حسین کے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیاروں کی کہانی گڑھ کر امریکہ کو عراق پر جنگ مسلط کرنے کو مجبور کیا۔سینکڑوں جانیں گنوانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی لیکن امریکہ عراق اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اہداف حاصل نہیں کر پایا۔
ایک حوالے سے گویا "More Over"کرتے ہوئے اس نے اب Exxonکمپنی کے سربراہ کو اپنا وزیر خارجہ بھی نامزد کردیا ہے۔اس سربراہ کو پیوٹن نے اعلیٰ ترین اعزاز دے رکھا ہے۔ روس پر کریمیا کی وجہ سے لگی پابندیوں کے باوجود Exxonنے سائبیریا میں تیل کی تلاش جاری رکھی۔ اُمید کی جارہی ہے کہ اگر یہ تلاش جاری رہی تو روس آنے والے دنوں میں سائبیریا کے تیل سے کم از کم 500ارب ڈالر کما سکتا ہے۔
انٹریٹ کے ذریعے ہوئی ذہن سازی نے امریکہ میں جوہیجان پیدا کر رکھا ہے وہ ہمیں چونکانے کا باعث بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں انٹرنیٹ کی رسائی ابھی بہت عام نہیں ہوئی۔ متوسط طبقے کی اکثریت مگر اس کی عادی ہوچکی ہے۔ اس عادت کو چند شرپسندوں نے اپنے گھناﺅنے مقاصد کے لئے کافی مہارت سے حال ہی میں دواہم موقعوں پر استعمال بھی کیا ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ان کے عقیدے کے بارے میں پھیلائی بدگمانی فیس بک وغیرہ کی وساطت ہی سے ممکن ہوئی۔ سپریم کورٹ کو بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ایک منظم پراپیگنڈہ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ہماری حکومت اور اشرافیہ مگر ذہن سازی کے جدید ترین حربوں کی اہمیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آرہے۔ نامور اینکر اور کالم نگار بھی ان حربوں کے بارے میں لاتعلق دِکھ رہے ہیں۔ یہ لاتعلقی مجرمانہ ہے۔ پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ایک ملک ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارے ہاں بدگمانیاں،انتشار اور ہیجان پھیلانے کا ہنر مکار دشمنوں نے استعمال کرنا شروع کردیا تو حالات سنبھالنا کافی مشکل ہوجائے گا۔ انٹرنیٹ ماہرین کی بھرپور معاونت کے ساتھ ہماری ریاست کو فی الفور عوام کے ذہنوں کو شر سے بچانے کی حکمت عملی ڈھونڈنا ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...