بابا کسے نامنظور ؟

Dec 19, 2017

خالد محمود ہاشمی

عدالت عظمیٰ کے قاضی اعلیٰ میاں ثاقب نثار نے قانون دانوں کی بیٹھک میں کھل کر اظہار خیال کیا کہ قسم کھا سکتا ہوں عدلیہ پر کوئی دباﺅ نہیں‘ عدلیہ آپ کا بابا ہے۔ دیانتداری پر شک نہ کریں ججوں پر دباﺅ ڈالنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔ کسی پلان کا حصہ ہیں نہ بنیں گے‘ خلاف فیصلہ آنے پر گالیاں نہ دیں۔چیف جسٹس کو یہ باتیں 28جولائی کو نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد سے آج تک ہونےوالی تنقید پر کافی دیر صبر کے بعد کہنا ًپڑیں لیکن دوسری جانب نوازشریف کے دل سے نااہلی کا ملال نہیں جارہا۔ 12اکتوبر 1999ءکو اپنے اقتدار پر پرویزمشرف کے شب خون مارے جانے کے بعد وہ تواتر سے اس طرح مغموم دکھا ئی نہیں دیتے تھے جس طرح اب نظر آتے ہیں۔ لندن سے روانگی کے موقع پر انہوں نے ایک بار پھر اپنے دل کی بھڑاس نکالی کہ انصاف کے 2ترازو نہیں چلیں گے۔ بنچ نے عمران کی طرف سے میرے خلاف مقدمہ لڑا، انہوں نے قانون اور آئین کی حکمرانی کیلئے ملک گیر تحریک چلانے کے اعلان کا اعادہ کیا۔ ادھر ان کی دختر مریم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے یوں مخاطب ہوئی ہیں ”مائی لارڈ! کیا آپ کا ”بابا“ واٹس ایپ کالز بھی کرتا ہے“ جہانگیر ترین نے نااہلی کے بعد پارٹی عہدہ چھوڑ دیا جسکے بعد نوازشریف پر بھی پارٹی صدارت چھوڑنے کےلئے اخلاقی دباﺅ بڑھنے جارہا ہے۔ وزیراعظم عباسی نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن 15جولائی 2018ءکو ہونگے لیکن فی الحال تو قوم سیاسی منظرنامے پر دھند کے بادل دیکھ رہی ہے۔ ایاز صادق نے محکمہ موسمیات کی طرح ایوان اقتدار پر بادلوں کی نشاندہی اور گرجتے رہنے کی پیش گوئی کر دی ہے۔ ”عمران اہل‘ ترین نااہل اور حدیبیہ بند“ کے بعد ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ عمران خان بددیانت ثابت نہیں ہوئے‘ حدیبیہ کیس زائد المیعاد یعنی گڑھا مردہ تھا، گڑھے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔28جولائی کو ن لیگ افسردہ اور 15دسمبر کو مسرور دکھائی دی۔ شہبازشریف کے نزدیک حدیبیہ فیصلہ انکی سیاسی زندگی کا عظیم دن ہے اور وہ تمام الزامات سے بری ہوگئے ہیں۔ خدا کرے وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے الزام سے بھی بری ہوجائیں‘ وہ دن ان کےلئے واقعی برا¿ت کا دن ہوگا۔ سپریم کورٹ کے دو اہم فیصلوں سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ریمارکس ”لگتا نہیں حکومت مدت پوری کرے“ نے سیاست میں ہلچل پیدا کردی۔ انکے خیال میں صورتحال غیر یقینی اور اندرونی خطرات زیادہ سنگین ہیں۔ ضروری نہیں سسٹم مارشل لاءسے ہی ڈی ریل ہو‘ کچھ ہونےوالا ہے، معلوم نہیں کون کروا رہا ہے۔ ایاز صادق کے خیال میں بیرونی قوتیں بھی گیم کھیلتی ہیں لیکن اگلے ہی روز وزیراعظم عباسی نے واضح کر دیا کہ حکومت مدت پوری کرےگی۔ سپیکر قومی اسمبلی کے ریمارکس یا خدشات کو بے بنیاد قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی انہونی ہو بھی سکتی ہے۔ احسن اقبال بھی کسی نئی حکومت کی تیاریوں کا اشارہ دے چکے ہیں۔ 2018ءکے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے دو امیدوار شہبازشریف اور عمران خان میدان میں اتریں گے۔ الیکشن میں مولویوں کی الگ مسجد بنے گی۔ مولویوں کے پیروکار مولویوں کی آواز پر لبیک کہیں گے، لبیک سننے اور کہنے والوں کے نزدیک سیاست ”لبیک“ کا نام ہے۔ لبیک سیاست میں لوٹوں کیلئے جگہ نہیں ہوتی، جانثار ہی لبیک سیاست کے ساتھ جڑتے ہیں۔
کسی ملک کی کرنسی کی قدر اس ملک کی عالمی سطح پر قدر کا پتہ دیتی ہے‘ ہماری معیشت کی شومئی قسمت کہ امریکہ اور امریکی ڈالر نے ہمیں عملاً مغلوب کر رکھا ہے۔ امریکی غلبے کا سبب ڈالر کا چہار سو غلبہ ہے۔ ہمارا ہر وزیر خزانہ ڈالر کیلئے سرگرداں رہتا ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر حاضری کسی دعوت ولیمہ میں شرکت کیلئے نہیں‘ ڈالروں کے حصول کیلئے ہوتی ہے۔ ڈالر لینے سے پہلے اور بعد میں بھی ہمیں یس سر، یس سر کا وظیفہ کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈالر نے ہمیں خوب پچھاڑا۔ ڈالر کی قیمت 112 روپے تک جاپہنچی۔ امریکہ اور پاکستان میں اتنا ہی فرق ہے، ہم اپنے 112 روپے امریکہ کے حضور پیش کریں تو وہ اپنا ایک ڈالر دیتا ہے، ایسے میں ہم کیسے برابری اور برابری کے تعلقات کا سوچ سکتے ہیں۔ یہ تو سفارتی جملے ہوتے ہیں کہ ہم فلاں ملک سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ”فلاں“ بھی ہمیں برابری کے قابل سمجھتا اور گردانتا ہے۔ ہم تو کسی کے باب میں بھارت کے ساتھ بھی برابری کی سطح پر کھڑے نہ ہوسکے۔ تاہم ایٹمی قوت ہونے کے حوالے سے ہم اس سے برابری کا دعویٰ ضرور کرسکتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت روز افزوں ہے، مختلف درآمدی اشیاء8سے 20فیصد مہنگی ہونے جارہی ہیں جن میں سرفہرست تیل ہے۔ مہنگے تیل سے بجلی بھی تو مہنگی ہوگی اور پھر ریل اور ٹرانسپورٹ اور تو اور حج عمرہ ٹریول بھی تو مہنگا ہوگا۔ کرنسی کے عدم استحکام سے ہمیں واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کےلئے مزید مہنگے قرضے لینا پڑینگے۔ ہمارے پاس اب اسحاق ڈار جیسا ہونہار وزیر خزانہ نہیں جو ڈالروں کے حصول کےلئے واشنگٹن حاضری دے سکے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے قرضوں کے بوجھ میں 400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جائیگا۔ عوام زیادہ سے زیادہ بُڑ بڑ کرلیں گے، گھروں میں بیٹھ کر حکمرانوں کو برا کہہ لیں گے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔
نوازشریف‘ شہبازشریف، آصف زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری، عمران خان یا مولانا فضل الرحمن تو قرضوں کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ ڈالر اور تیل کی مہنگائی 22کروڑ پاکستانیوں کی کے تفکرات میں اضافہ نہیں کرےگی تو کیا کرےگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری برآمدات 2014-15ءسے مسلسل انحطاط کا شکار ہیں، کوئی پیکیج کارگر ثابت نہیں ہوا۔ ہم 2013ءکے بعد سے تین سال تک آئی ایم ایف کی تعمیل ارشاد میں بجلی وگیس کے نرخ بڑھاتے رہے۔ تجارتی خسارہ 32.50 ارب ڈالر ہے۔ غیرملکی قرضے روپے کی قدر گرنے سے 8.9کھرب روپے سے بڑھکر 9.4کھرب روپے ہوگئے یعنی یکدم 500 ارب روپے کااضافہ۔ کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ برآمدات بڑھانے اور درآمدات گھٹانے کا شارٹ ٹرم حربہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ چین‘ بنگلہ دیش اور بھارت نے ایسے شارٹ ٹرم حربے استعمال نہیں کیے۔ روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر کادباﺅ بڑھ جاتا ہے۔ ہماری برآمدات کی بیس بہت چھوڑی ہے۔ مینوفیکچرنگ کے حوالے سے چین‘ ویت نام اور افریقہ بہترین مثالیں ہیں۔ مینوفیکچرنگ سے ہی جابز ملتی ہیں، زرمبادلہ ہاتھ آتا ہے اور ذخائر خود بخود بڑھنا شروع ہوتے ہیں۔ قرضے لیکر زرمبادلہ کے ذخائر کا اعلان کرنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے۔ڈار صاحب کی شاطرانہ اکنامکس کے کسی باب میں شاید یہی طریقہ لکھا ہو۔چین اور ایسٹ ایشیاءکے اکنامک ماڈل کا چربہ کرنے میں کیا حرج ہے، ہمارے ہاں چربہ فلمیں بھی تو بنتی رہی ہیں۔ پی ایچ ڈی کے سرقہ مقالے بھی پکڑے گئے۔ہم برآمدات کے حوالے سے اپنے مدمقابلے ملکوں کے ہاتھوں پچھاڑے جارہے ہیں۔ ہماری اور انکی پیداواری لاگت میں 10فیصد کا فرق ہے جو ہمیں روپے کی قدر میں کمی پر مجبور کر رہا ہے۔ کرنسی کی قدر کا گرنا اور صحت کا گرنا ایک جیسا ہے۔ گر کر اٹھنا آسان نہیں ہوتا‘ لوگ پکڑ کر ہی اٹھاتے ہیں۔
3جون 18ءکو حکومت کی مدت پوری ہونے تک بڑے اکنامک چیلنجوں میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباﺅ کا مقابلہ کرنا تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا، کمپنیوں کے منافعوں اور شیئر ہولڈرز کےلئے ڈی وی ڈینڈز کو گرنے نہ دینا اور گرتی ہوئی برآمدات کو سنبھالا دینا قابل ذکر ہیں اور وہ بھی اسحاق ڈار کے بغیر۔

مزیدخبریں