قارئین! لمحہ موجود میں معاشرتی توڑ پھوڑ کے حوالے سے اور انسانوں کی آپس میں نفرتوں کی شدت وکثرت کے بارے میں ہم کسی پچھلے کالم میں بات کرچکے ہیں‘ ان کے مضمرات پر ہم اپنی سوچ بچار سامنے لائے تھے۔ آج ہم نے محبت‘ شفقت اور مُلائمیت بھرے رویوں کی بات کرنی ہے۔ گوکہ جذبوں کے موجودہ ناخالص دور میں محبت بھی نفرت ہی کا مہذب نام بلکہ ترجمہ بن کر رہ گئی ہے تاہم محبت ابھی بھی ایک محترم اور فاتح جذبہ ہے۔ رشتہ کوئی سا بھی ہو اگر محبت کا جذبہ انسانوں کے درمیان موجود ہے تو آدمیت‘ شرافت اور انسانی اقدار پر یقیناً اعتبار برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے اصلی معنی CARE یا پرواہ کے ہیں، اگر طرفین میں اس لفظ کا عمل یا ردعمل موجود نہیں ہے تو پھر وہاں محبت کا وجود بھی نہیں ہے۔ ہماری ذاتی سوچ کے مطابق محبت کا ترجمہ کسی پہلو سے بھی جارحیت نہیں ہے۔
٭.... محبت دو انسانوں کے درمیان یا مجاز وحق کے بیچ مضبوط ترین ربطہ ہے۔
٭.... کسی کیلئے اپنی محبت اور نفرت دونوں جذبوں کو ڈھانپ کر رکھیئے‘ جونہی آپ نے اظہار کیا آپ سمیت تینوں کا استحصال شروع ہو جائے گا، بہتر ہے صرف بے لوث محبت عمل میں رہے۔
٭.... محبت نام ہی اعتبار کا ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کا دعویٰ اور وعدہ دونوں غلط ہیں۔
٭.... محبت ایک دوسرے پر غالب آجانے کی کلید اول بلکہ حتمی نسخہ ہے۔
٭.... آپ اس معصوم لیکن زبردست جذبے سے سینکڑوں مثبت کام لے سکتے ہیں، یہاں تک کہ انہونی کو ہونی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
٭.... محبت کا جذبہ بہادر ہوتا ہے‘ اس لئے آپ کو بھی بہادر بناتا ہے۔
٭.... یہ انسان کی کمزوری ضرور ہے لیکن بجائے خود کمزور جذبہ نہیں ہے۔
٭.... یہ جذبہ الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ کھرا جذبہ لفظ نہیں عمل ہوتا ہے جس طرح آپ بیک وقت منہ سے گالی بکنے کے فوراً بعد مدمقابل سے محبت کا دعویٰ نہیں کرسکتے‘ اسی طرح کھری محبت کسی بھی مقام پر اور کسی بھی لمحے نفرت تخلیق نہیں کرسکتی۔
٭.... محبت کا سچ نیکی سے پھوٹتا ہے۔
٭.... محبت نرم خو ہوتی ہے‘ اس لئے نفرت کو نظرانداز کرنا سکھاتی ہے۔
٭....محبت بھرپور جذبہ ہے، یہ آپ کو اندر سے بھرا ہوا رکھتی ہے۔
٭.... محبت کا جذبہ اچانک آپ کے اندر پیدا ہوتا ہے اور یہی اس کی سچائی کی دلیل ہے، بالکل اس طرح جس طرح کسی خوش نصیب انسان کے دل پر حق کا لمحہ اچانک وارد ہوتا ہے تو اسے نورعلی نور کر جاتا ہے، اگر آپ میں بھی یہ جذبہ اچانک پیدا ہوگیا اور کھرا ہے تو یہ تمام زندگی آپ کے اندر اپنی پہلی اصلی حالت اور صورت میں موجود رہے گا۔ آپ اسے تبدیل نہیں کرسکتے نہ ہی یہ خود تبدیل ہونے کی جسارت کرسکتا ہے۔
٭.... محبت حاجت اور حاجت محبت نہیں ہے‘ یہ ان دونوں سے ماورا الوہی جذبہ ہے۔
٭.... خالص خلوص ایسی دولت ہے جو خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں بڑھتی ہے۔
٭.... محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے‘ اس لئے آپ کو بھی خوبصورت کر دیتا ہے بلکہ محبت کرنے والے چہرے سے زیادہ خوبصورت کوئی اور چہرہ نہیں ہوسکتا ایسی خوبصورت محبت کسی بھی رشتے میں ہوسکتی ہے۔
٭.... خلق خدا سے محبت انسان کو اپنی باقی تمام تر صفات میں سے سورة یاسین کی طرح پیاری ہونی چاہیے۔ یہ سورة قرآن حکیم کا دل ہے‘ محبت بھی دل کے اندر ہوتی ہے اور پاکیزہ ہوتی ہے۔
٭.... موجودہ دور میں خالص خلوص کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، ہر شخص اپنی اپنی جیب میں دوسروں سے وابستہ توقعات کی ایک لمبی فہرست لئے گھوم رہا ہے، اگر آپ نے خوفزدہ ہوکر اس فہرست کی تکمیل کر دی تو آسانی سے جان چھوٹ جائے گی ورنہ مدمقابل بزور شمشیر آپ سے اس کی تکمیل کرا لے گا‘ لہٰذا خبردار رہیے۔
٭.... نیکی محبت کی اور محبت نیکی کی پیداوار ہے۔
٭.... یہ ایک منطقی بلکہ حتمی بات ہے کہ آپ جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ آپ نے اس کو جیت لیا ہے لیکن جب کسی سے نفرت کر رہے ہوتے ہیں تو یہ یقین کیوں نہیں کرتے کہ آپ نے اسے کھو دیا ہے۔
٭.... کسی کو یاد رکھنا یا بھول جانا ہمارا لاشعوری عمل ہوتا ہے، آپ کسی کو بوجہ نفرت یاد رکھنے یا بھول جانے پر مجبور نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ خود ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک پر مجبور نہ ہو جائے۔
المختصر کہنا یہ ہے کہ دکھ بھری عارضی زندگی کو سکون سے گزارنا ہے تو محبت‘ ملائمیت اور شفقت کے جذبوں کو عمل میں لے آیئے اور نفرت سے ہمیشہ نفرت ہی کیجئے۔