یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کے غیر مذہب کے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سکالرز نے حبیب کبریا رحمت اللعالمین کی شان والا صفات اور ان کی تعلیمات کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے وہ کسی اور نبی، پیغمبر اور اوتار کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ یہ سب کچھ کسی ایک زبان میں نہیں تقریباً دنیا کی ہر زبان میں لکھا گیا ہے اور کتابی صورت میں بھی دستیاب ہے۔ اس حوالے سے ”فیضان رحمت بیکراں “ کے عنوان سے ایک مجموعہ نعت بھی موجود ہے جس کی خصوصیت اور خوبی یہ ہے کہ اس مجموعہ میں شامل نعتوں کی تعداد تقریباً 150کے قریب ہے اور یہ سب کی سب نعتیں غیر مسلم شعراءاور دانشوروں کی تخلیق ہیں جن میں زیادہ تعداد ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جبکہ مسیحی، سکھ اور دیگر مذاہب کے شعراءکا کلام بھی اس میں شامل ہے یہ مجموعہ نعت جناب ظفر اللہ خان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ظفر اللہ خان جلال آباد فیروز پور میں 1933ءمیں پیدا ہوئے‘ مرے کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کی اور ٹیکسٹائل کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ میں حاصل کرنے کے بعد ٹیکسٹائل کے بزنس سے وابستہ رہے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور سے وابستہ ہیں اور امام صحافت حضرت مجید نظامی کے حلقہ ارادت میں بھی شامل رہے اور ان ہی کے دست مبارک سے تحریک پاکستان سے وابستگی کے باعث گولڈ میڈل حاصل کیا۔ سچے اور پکے عاشق رسول ہیں ایک ہندو شاعرکی وجہ تخلیق کائنات محمد مصطفے احمد مجتبیٰ کی شان تقدس مآب میں نعت پڑھ کر انہیں غیر مسلم شعراءاور دانشوروں کی نعتوں کا مجموعہ شائع کرنے کا تموج پیدا ہوا اور زیر تذکرہ مجموعہ نعت منصئہ شہود پر آیا۔ اس مجموعہ نعت میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد الیاس جو بعدازاں سپریم کورٹ کے بھی جج رہے اور ماہنامہ ”پھول“ کے محمد شعیب مرزا اور جنرل (ر) خواجہ راحت لطیف مینجنگ ڈائریکٹر پاکستان ایجوکیشن نیٹ ورک لاہور کی قابل مطالعہ آراءبھی شامل ہیں جبکہ پیش لفظ خود ظفر اللہ خان کا تحریر کردہ ہے جس میںدرخت، پتھر اور سورج چاند بھی شامل ہیں کے حوالے سے وہ ایک جگہ شجر کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ”عالم امکان میں ہر مخلوق کی محبوب خدا کی ذات و برکات سے عقیدت اور محبت کی مثالیں موجود ہیں۔ ابتدائی ایام میں مسجد نبوی میں آپ خطبہ دیتے وقت کھجور کے ایک خشک تنے پر دست مبارک رکھ لیا کرتے تھے اور بعد میں منبر شریف پر جلوہ افروز ہوکر خطبہ فرمانے لگے تو دست رحمت سے محروم ہونے والے کھجور کے تنے کی آہ و زاری رحمت دوعالم نے سنی اور اس کی تشفی فرمائی اور اسی جگہ ریاض الجنة میں ستون حنانہ آج بھی ہے اور تاقیامت زائرین کو اس واقع کی یاد دلاتا رہے گا۔ حجر کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل مٹھی میں کنکریاں لے کر حضور سے پوچھنے لگا کہ بتایئے کے میری مٹھی میں کیا ہے؟ سرکار دوعالم نے فرمایا کہ میں بتاﺅں کہ تمہاری مٹھی میں کیا ہے یا وہ بتائیں کہ میں کون ہوں اور پتھروں نے کلمہ شہادت پڑھ کر سنا دیا۔ سورج کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے سیارے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کو بھی تعمیل ارشاد خیر الانام کا فخر حاصل ہے۔ حضرت علیؓ کی نماز عصر قضاءہوئی تو شاہ کونین نے سورج کو غروب سے واپس عصر کے وقت کی بلندی تک آنے کا حکم دیا جس کی تعمیل ہوئی۔ چاند کے دو ٹکڑے کئے پھر جڑ جانے کا اشارہ فرمایا تو چاند نے تعمیل کی یہ صرف خوش اعتقادی یا خوش اعتمادی نہیں تاریخ کا حصہ ہے کہ بھارت کی ریاست مالا بار کے راجہ نے اپنے محل میں بیٹھے ہوئے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ نجومیوں نے اسے بتایا کہ عرب کے شہر مکہ میں نئے آنے والے پیغمبر کا یہ معجزہ ہے۔ امریکی سائنسی تحقیقاتی ادارے نے 1400 سال کے بعد اس معجزہ شق القمر کی تصدیق کی۔“
اس سے پہلے کہ غیرمسلم شعراءکی نعتوں کے کچھ اقتباسات آپ کو پیش کئے جائیں ہندو شاعر کبیر داس بنارسی کے دو اشعار اور ان کا مفہوم آپ کے ذوق مطالعہ کے عین مطابق ہوگا۔
عدد نکالو ہر چیز چوگن کر لو وائے
دو ملا کے پچگن کر لو، بیس کا بھاگ لگائے
باقی بچے کہ نو گن کر لو
دو اس میں دو اور ملائے
کہت کبیر سنو بھائی سادھو نام محمد آئے
مفہوم :- جو لفظ بھی آپ فرض کریں اسکے عدد بحساب ابجد نکال لیجئے پھر اس عدد کو چار سے ضرب دیجئے۔ حاصل ضرب میں 2 عدد ملا دیجئے اور پھر اس حاصل جمع کو پانچ سے ضرب دیجئے اور پھر اس حاصل ضرب کو بیس سے تقسیم کر دیجئے۔ تقسیم کے بعد جو عدد باقی بچے اس کو نو سے ضرب دیجئے اور پھر حاصل ضرب میں 2 عدد ملا دیجئے بس اس وقت جو عدد حاصل ہوگا وہ 92 کا عدد ہوگا جوکہ محمد کا عدد ہے ۔ اس طرح سے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ عددوں والے جس حرف و لفظ سے بھی آپ تجربہ کریں بالکل صحیح پائیں گے۔اب آپ کی خدمت میں اس مجموعہ نعت کے چند ہندو شعراءکے چیدہ چیدہ اشعار حاضر ہیں۔ بابو طوطا رام احقر ....
مدت سے یہ دل اپنا ہے شیدائے مدینہ
کب مجھ کو خدا دیکھئے دکھلائے مدینہ
مجنون میں ہوں ہندی وہ لیلائے مدینہ
لازم ہو میرا وقت ہو صحرائے مدینہ
حکیم ترلوک ناتھ اعظم جلا ل آبادی....
پیا م محمد خدا کا پیام،کلام محمد خدا کا کلام
تسلط ترا ہفت افلاک پر
زباں خلائق پہ ہے ترا نام
ابھے کمار....
کونین کے مالک و مختار وہی ہیں
مولا ، میرے آقا میرے سرکار وہی ہیں
رویند جین رویندر....
روز اول کے ہیں عنوان رسول اکرم
اور محشر کے ہیں سلطان رسول اکرم
بابو برج گوپی ناتھ بےکل امرتسری....
کیوں نہ ہم بھی اس جہاں کا پیشوا مانیں تجھے
کیوں نہ راہ حق میں اپنا رہنما مانیں تجھے
دلو رام چودھری کوثر ....
طفلی سے فدا نام محمد پہ ہوا ہوں
اسلام پہ شیدا ہوں میں سو جان سے جی سے
دل دولت اسلام سے بندہ کا غنی ہے
آسود میں کونین میں ہوں نعت نبی سے
لالہ تارا چند تارا لاہوری ....
یوں انبیاءہیں میرے پیمبر کے سامنے
جسے چکور ہوں مہ انور کے سامنے
شبیرؓ کو جنہوں نے کیا قتل بے گناہ
کیا وہ منہ لے کے جائینگے حیدرؓ کے سامنے
بھگوان داس بھگوان ....
یا نبی المحترم یا خواجہ ارض و سما
یا رسول محتشم یا شافی روز جزائ
ہادی کل امم یا مظہر نور خدا
مرحبا اھلاً و سہلاً یا حبیب کبریا
السلام ولسلام یا محمد مصطفی
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر....
تکمیل معرفت ہے محبت رسول کی
ہے بندگی خدا کی اطاعت رسول کی
تسکین دل ہے سرور کون و مکاں کی یاد
سرمایہ حیات ہے الفت رسول کی
ہے مرتبہ حضور کا بالائے فہم و عقل
معلوم ہے خدا ہی کو عزت رسول کی
ترتیب دی گئیں شب اسریٰ کی خلوتیں
صلی علی یہ شان یہ عظمت رسول کی
اتنی سی آرزو ہے بس اے رب دوجہاں
دل میں ”سحر“ کے محبت رسول کی
نعتیہ مجموعہ جس عقیدت و محبت سے ترتیب و تالیف دیا ہے اور ہر صفحہ اسلامی رنگ سبز کی مناسبت سے سبز رنگ سے ہی ترتیب دیا گیا ہے قابل تعریف و تحسین ہے اور ظفر اللہ خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے یہ نعتیہ مجموعہ شائع کرکے حضور اقدس کوجو نذرانہ پیش کیا ہے اللہ اسے قبول فرمائے۔