مکرمی! جھنگ کی ”رانی بی بی“ شوہر کے قتل میں ملوث 18سال کے بعد رہا ہوگئی۔جھنگ کی رانی بی بی اپنے خاوند کے قتل میں اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ 18سال سے جیل میں قید تھی‘ باپ تو جیل کے اندر ہی ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے کاٹنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرگیا۔ بہن بھائی 18سال بعد اپنی بے گناہی ثابت کرکے رہا ہوئے۔ عدالت کے معزز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہم ”رانی بی بی“ کے 18سال تو نہیں لوٹا سکتے مگر ہم اس بات پر شرمندہ ہیں کہ 18سال بعد خاتون کو انصاف مہیا کرسکے۔ کاش عدالت عالیہ کے معزز جج ذرا اس بات پر غور کر لیتے کہ آخر پولیس کیس سے لیکر ان کی ماتحت عدالت سیشن کورٹ کے جج نے بھی تو فیصلہ کیا ہی تھا۔ لامحالہ اس کے بعد وہ ہائیکورٹ میں بھی اپیل لیکر گئی ہوگی اور ہائیکورٹ کے معزز جج نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان چھوٹی بڑی عدالتوں نے ”مثل“ پڑھے بغیر ہی سزائے موت سنا دی تھی؟ اس سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک ملزم کو بری کرتے ہوئے ”فلم انصاف اور قانون“ کے یہ ڈائیلاگ بولے تھے کہ ”جج صاحب! میرے 12سال لوٹا دو‘ جو میں نے بے گناہی میں کاٹے تھے۔“پتہ نہیں ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے کتنے گھرانے برباد اور کتنے بچوں کا مستقبل تباہ ہوتا رہا ہے۔ کیا چیف جسٹس آف پاکستان اپنے عدالتی نظام اور ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظرثانی فر مائیں گے۔راﺅ محمد محفوظ آسی‘ ٹاﺅن شپ (لاہور)