اسلام آباد ( نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ اجلاس میں زکٰوۃ و عشر اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ ‘ سرکاری خط و کتابت میں خیبر پی کے کا پورا نام لکھنے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مذمتی قراردادیں منظور کر لیں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے ایوان بالا میں قرارداد پیش کی جس کے متن میں کہا گیا ہے بھارتی افواج کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کو دبا نہیں سکتیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹ پر بحث کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، بھارت بات کرے، مذاکرات کرے، اس میں کشمیری شامل ہوں۔ انہوں نے کہا ہم نے دنیا کو بتایا ہی نہیں کشمیر میں کیا ظلم ہو رہا ہے، ہم نے کسی فورم پر کشمیر میں خواتین پر مظالم کو نہیں اُٹھایا، یہ نہیں ہو سکتا کشمیریوں کا خون بہتا رہے اور ہماری حکومت کچھ نہ کرے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کا کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرنے کی بات کرنا کافی نہیں، ہماری حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں انسانی حقوق کی رپورٹ لے کر جائیں گے۔ اقوام متحدہ سے کہیں گے کہ کشمیر پر تحقیقاتی کمشن قائم کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا گزشتہ 5 سال کے دوران خیبر پی کے میں درخت کاٹے گئے۔ پنجاب اور بلوچستان سمیت ہر جگہ درخت کاٹے گئے۔ درخت کاٹنا ظلم اور لگانا مقدس کام ہے۔ مشاہداللہ کے خطاب کے دوران ایک بار پھر سینٹ کا ماحول گرم ہو گیا۔ مشاہداللہ نے کہا جب اپوزیشن بولے تو خاموشی سے سنا جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کو زیربحث لانے کی تحریک ایوان میں پیش کر دی گئی۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا خیبر پی کے میں ایک ارب درخت لگائے گئے۔ صاف اور سرسبز پاکستان کے تحت 10 ارب درخت لگائے جائیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر ڈیم فنڈ میں حصہ لیا۔ چند ماہ کے دوران 9 ارب روپے اکٹھے کئے گئے۔ تحریک انصاف کی سینیٹر زرتاج گل نے کہا خیبر پی کے میں بلین ٹری منصوبہ شروع کیا گیا۔ بلین ٹری منصوبے کی وجہ سے خیبر پی کے کے دریاؤں کا کٹاؤ کم ہوا۔ مشاہداللہ کی حکومت راجن پور میں ٹمبر مافیا کو سپورٹ کرتی رہی۔ ہم نے درخت لگائے، ن لیگ نے ساہیوال میں کوئلے کا پلانٹ لگایا۔ ماحولیاتی تبدیلی بڑا چیلنج ہے۔ اس پر ہم نے 2013ء میں کام شروع کیا تھا۔ آئی این پی کے مطابق سینٹ میں حکومت کو وزراء کے درمیان ہم آہنگی نہ ہو نے سے شدید شرمندگی کا سامنا کر نا پڑا۔ فاٹا کو این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد دینے اور 20ہزار نوکریوں کے وعدے پر عملدرآمد سے متعلق قرارداد پر وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں جن میں این ایف سی ایوارڈ کا 3فیصد اور 20ہزار ملازمتوں کا ذکر کیا گیا ہو، ہم اس قراردا د کی مخالفت کرتے ہیں ، تاہم وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان، قائد ایوان شبلی فراز اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے قرارداد کی حمایت کی جس پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومتی بینچز میں بہت کنفیوژن ہے۔ ایک وزیر کہتا ہے ہم اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ دوسرا اس کی حمایت کرتا ہے حکومت کی ایک آواز ہونی چاہیے۔ بعدازاں حماد اظہر نے کہا مجھے شیریں مزاری نے بریف کیا ہے، ہم اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں جس پر قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق نے کہا شیریں مزاری وزراء کو بروقت بریفنگ دے دیا کریں تا کہ کنفیوژن نہ ہو ۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے ایوان میں رائے شماری کرائی جس پر قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ صباح نیوز کے مطابق فاٹا کے سینیٹرز نے شدید احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر جو وعدے کیے گئے اگر پورے نہ کیے گئے تو فاٹا کے عوام کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکے گا۔ شدید احتجاج کے بعد حکومت نے فاٹا پر سینیٹر اورنگزیب کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کر لی۔ سینیٹر اورنگزیب خان نے قرارداد پیش کی یہ ایوان سفارش کرتا ہے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرتے وقت این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد دینے اور اس علاقے کے نوجوانوں کے لیے 20ہزار روزگار کے مواقع پیدا کرے گا جو وعدہ کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد کے لیے حکومت فوری اقدامات اٹھائے جس کی پہلے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے مخالفت کرتے ہوئے کہا سرکاری دستاویزات میں اس قسم کا کوئی معاہدہ مجھے نہیں ملا ہے۔ سینٹ نے پابندی ازواج اطفال(ترمیمی بل 2018) قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھیج دیا۔ بل کی رو سے 18سال تک کی عمر کے بچوں کو بچہ تصور کیا جائے گا۔ بل پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس کو قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی قرار دے دی اور بل کو کمیٹی کے بجائے اسلامی نظریہ کونسل بھیجنے پر زور دیا بل سینٹر شیری رحمان نے پیش کیا۔بل کی منظوری کے بعد اس کا اطلاق اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں پر ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا سندھ میں اس حوالے سے ایک بل پاس ہو چکا ہے جبکہ بلوچستان، کے پی اور پنجاب میں قانون سازی ہو رہی ہے۔سینٹ میں تین بل متفقہ طور پر متعلقہ کمیٹیوں کو بھیج دیئے گئے جبکہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کا بل حکومتی مخالفت پر مسترد ہو گیا جبکہ تین قراردادیں متفقہ طور پر پاس کی گئیں۔ سینیٹر محمد صابر شاہ کی جانب سے دستوری ترمیمی بل 2018ء جو کہ قرآن پاک کی پرنٹنگ کے حوالے سے تھا ۔سینیٹر میاں رضا ربانی کی اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء میں مزید ترمیمی کا بل 2018ء جو کہ نوکریوں میں کوٹے کو برقرار رکھنے کے حوالے سے تھا سینیٹر شیری رحمن کا بل پابندی ازدواج اطفال 2018ء جو کم عمر بچوں کے حوالے سے تھا کو متفقہ طور پر متعلقہ کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا جبکہ سینیٹر محمد عتیق شیخ کا بل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ترمیمی بل 2018ء کی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد نے پیش کرنے کی مخالفت کر دی جن پر رائے شماری کرائی گئی جس کے حق میں تین اور مخالفت میں سات ووٹ آئے جس پر بل کو مسترد کر دیا گیا۔ سینیٹر مشتاق احمد کی زکٰوۃ اور عشر کے نظام اور اسلامی معاشی نظام پر عملدرآمد کے حوالے سے قراردادسینیٹر ستارہ ایاز کی سرکاری خط و کتابت میں صوبہ خیبرپی کے کا پورا لکھنے کے حوالے سے قرارداد اور سینیٹر اورنگزیب جان کی فاٹا کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔نیوز رپورٹر کے مطابق قائم مقام چیئرمین سینٹ سلیم ایچ مانڈوی والا نے ایوان بالا کو بتایا انہوں نے چیئرمین نیب کو ہدایت کی ہے سینٹ کے کسی بھی معزز رکن کو نیب میں طلب کرنے سے پہلے ہائوس کو اعتماد میں لیا جائے ۔ہم اس ایوان اور ہر رکن کی عزت برقراررکھیں گے اور اسے بڑھائیں گے۔ کسی ممبر کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی تو اس کے لئے لڑیں گے۔ انہوں نے کہا سینیٹر محسن عزیز اور دو اور سینیٹرز سے متعلق نیب انکوائری کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس سلسلے میں چیئرمین سینٹ کو میں نے خط لکھ دیا ہے۔ کسی رکن سے انکوائری مقصود ہے تو اس سے متعلق پہلے سینٹ سے تصدیق ضروری ہو گی۔