لاہور (نمائندہ سپورٹس )ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کو سابق اولمپیئنز پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ناقص منصوبہ بندی اور دوست نواز پالیسی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔سابق اولمپین سمیع اللہ ‘سابق اولمپیئن نوید عالم اور سابق اولمپیئن سلمان اکبر نے کہا کہ حکومتیں ہر دور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو پیسے دیتی رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کیا منصوبہ بندی کی؟ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اس افراتفری کا نتیجہ ہے جو پاکستان ہاکی فیڈریشن نے مچائی۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل جیت کے بلند بانگ دعوے کیے گئے حالانکہ حقیقت سب کو پتہ تھی کہ اس ٹیم کی عالمی رینکنگ 13ویں ہے تو پھر نتیجہ بھی یہی آنا تھا۔ فیڈریشن تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے اپنی ناکامی پر پردہ ڈال رہی ہے اور جو سابق اولمپینز اس کمیشن میں شامل کیے گئے ہیں دراصل وہ فیڈریشن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ان چار برسوں میں پاکستان کی ہاکی صرف ہاری نہیں ہے بلکہ برباد ہو گئی ہے اور اس کی ذمہ دار پاکستان ہاکی فیڈریشن ہے۔ چار سال میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ایک سو ایک کروڑ روپے ملے لیکن وہ ایک بہترین ٹیم تشکیل دینے میں مکمل ناکام رہی۔پاکستان ہاکی نہ صرف ہاری ہے بلکہ برباد ہو گئی ہے ۔ وہ ایک کے بعد ایک ٹیم منیجمنٹ تبدیل کرتی رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں پاکستانی ٹیم کے پاس ایک بھی پروفیشنل کوچ نہیں تھا۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق نہیں سیکھا۔ 2010 کے عالمی کپ میں حسن سردار چیف سلیکٹر تھے اور پاکستانی ٹیم 12 ویں نمبر پر آئی اور اب وہ منیجر تھے اور ٹیم کی پوزیشن وہی 12 ویں رہی۔نوید عالم نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے ٹیم کی خراب کارکردگی پر کمیشن قائم کیے جانے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں پر شکست کا ملبہ گرا کر فیڈریشن خود بچنا چاہتی ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے کھلاڑیوں کو کتنی ٹریننگ فراہم کی گئی ؟ انھیں تو کبھی شو بزنس کی شخصیات سے ملوایا جاتا رہا کبھی ڈنر کیے جاتے رہے۔ 2010 میں ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے گول کیپر سلمان اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو یہ بات معلوم تھی کہ پچھلے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کوالیفائی نہیں کرسکی تھی لہذا ایک ٹارگٹ مقرر کرنے اور بھرپور تیاری کی ضرورت تھی لیکن سیاسی اثر و رسوخ، پسند ناپسند اور بار بار ٹیم مینجمنٹ کی تبدیلی کے سبب ٹیم کو تیاری نہ مل سکی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن نے جونیئر ہاکی کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے لیکن کہاں گیا وہ بیک اپ اور جونیئر کھلاڑی؟ پاکستان ہاکی کو رولینٹ آلٹمینز کی شکل میں اچھا کوچ ملا تھا لیکن انھوں نے بھی ہاکی کے غیر پیشہ ورانہ انداز کو دیکھ کر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پاکستانی ہاکی کو اس وقت ان کوچز کی ضرورت ہے جو عصر حاضر کی ہاکی کھیل چکے ہیں۔ اس وقت بھی ایسے کئی کوچز ہیں جو بیرون ملک کوچنگ کر رہے ہیں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ہاکی صرف ہاری نہیں برباد ہو گئی ہے‘سابق اولمپیئنز
Dec 19, 2018