پی آئی سی واقعہ: وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمٹی تشکیل، حملہ، بدقسمتی، پولیس ناکامی تسلیم کرے: لاہور ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے وکلاء ڈاکٹرز تنازعہ کے حل کے لئے آٹھ رکنی کمیٹی قائم کردی۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہسپتال پر حملہ بدقسمتی ہے۔ وکلاء ڈیڑھ گھنٹے تک سڑکوں پر رہے انہیں کیوں نہیں روکا گیا۔ پولیس اپنی ناکامی تسلیم کرے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ عدالتی حکم پر ہوم سیکرٹری اور آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ وکلاء چھ میل کا فاصلہ طے کرکے گئے۔ جو ایکشن پی آئی سی میں کیا گیا وہ پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ گرفتار وکلاء کے چہرے ڈھانپ کر عدالت پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جس نے کچھ کیا اسے خمیازہ بھگتنا چاہئے جس نے نہیں کیا اسے کیوں تنگ کیا گیا؟ عدالت نے کہا ملک میں کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں۔ کیا پی آئی سی کے سامنے پولیس نے جانے کی اجازت دی تھی۔ آئی جی نے بتایا کہ پولیس نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی۔ عدالت نے پوچھا کہ پھر پولیس نے وکلاء کو ہسپتال جاکر احتجاج کرنے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ ہسپتال تو ایسی جگہ ہے جہاں مریضوں پر عبادت بھی ساقط ہوجاتی ہے۔ دل کے مریضوں کے سامنے تو اونچی آواز اور اونچی سانس بھی نہیں لی جاسکتی۔ عدالت نے پوچھا کہ کتنے افراد اس واقعہ میں جاں بحق ہوئے۔ جس پر حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ اس واقعہ میں تین افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فاضل عدالت نے پوچھا کہ میڈیا نے کتنی تعداد بتائی جس پر ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ تعداد سات بتائی ہے۔ ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ جاں بحق مریضوں کے لواحقین کودس لاکھ روپے فی کس دئیے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ دس لاکھ بہت کم ہیں ۔ عدالتی حکم پر پی آئی سی کے سربراہ بھی چیمبر میں پیش ہوئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ وکلاء کے چہرے پر ماسک چڑھا کر کیوں پیش کیا۔ نقاب چڑھانے والا کام تو پھانسی دیتے ہوئے کرتے ہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب وکلاء ہیں تو آپ ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کون تھا افسر وہاں؟آئی جی نے بتایا کہ ایس ایس پی صفدر کاظمی نے درخواست کی تھی کہ آگے نہ جائیں۔ عدالت نے کہا کہ یہاں پر ایک خاتون نے ڈی ایس پی کو تھپڑ مارے پولیس نے کیا کیا؟ یہاں پولیس والوں کیساتھ کیا کچھ ہوتا ہے اس پر آپ نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ہم ترقی پذیر ملک ہیں ہم آہستہ آہستہ اس طرف آ رہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب صاحب انہی لوگوں کو آپ یو کے بھیج دیں وہاں قانون کی مکمل پاسداری کریں گے۔کالا کوٹ کوئی گالی نہیں ہے۔ اس شخص کے بارے میں بات کریں جس نے اس کی توہین کی ہے۔سب کو ایک رسی سے نہ باندھیں۔جو لوگ ملوث ہیں انکے ساتھ ہم نہیں ہیں۔ انکے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔جو وکلاء اس میں ملوث نہیں انکو تنگ نہ کریں، یہ بڑا واضح میسج ہے آپکو۔ عدالت نے حکم دیا کہ میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ نہ کرے۔کالے کوٹ کی تضحیک نہ کی جائے۔ عدالت نے معاملے کے حل کے لئے وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔عدالتی حکم پر وکلاء نے مصالحتی کمیٹی کے لئے چار نام پیش کردئیے۔جس میں صدر لاہور ہائی کورٹ بار حفیظ الرحمن چوہدری،وائس چئیرمین پنجاب بار کونسل شاہ نواز اسماعیل ‘ لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدراصغرگل اور پاکستان بار کونسل کے رکن احسن بھون شامل ہیں۔ ڈاکٹروں کی جانب سے مشاورت کے بعد نام عدالت میں پیش کئے جائیں گے۔دونوں فریقین آج اپنے نمائندے مقرر کریں تاکہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...