اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی )بابری مسجد کے بارے میں بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت پر کیا گیا وار، بابری مسجد کا فیصلہ اور اب شہریت کے بارے میں بھارتی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندوستانی سیکولرزم صرف سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ایک ڈھونگ ہے۔ ہندوستانی ریاست کی اصل صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے جہاں پچھلے 70 سالوں سے آر ایس ایس کی بھرپور موجودگی اور موجودہ حکومت کے زیر سایہ اسکی شدت میں اضافہ آنے والے حالات و واقعات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیراہتمام بابری مسجد: ہندوتوا زدہ بھارت اور اس کے خطرات کے عنوان سیمنعقدہ ایک سیمینار میں سامنے آیا۔ اجلاس سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے ضمیر اکرم، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضل، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امیر عبداللہ عباسی اور آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالدرحمن نے خطاب کیا۔ ضمیر اکرم نے ہندوستان میں جاری صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو نسل پرستی کا عروج کس طرح بھارت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس فیصلے نے آر ایس ایس کے بنیادپرستوں کو اس طرح کے مزید اقدامات اٹھانے کی راہ دکھا دی ہے جس کے لیے وہ پہلے سے ہی عوامی سطح پر اپنے ارادے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بھارتی سیکولرزم کا دعوی درحقیقت اس وقت کی صورت حال میں ایک سیاسی ضرورت تھا کیونکہ یہی وہ راستہ تھا جو اتنے بڑے متنوع ملک کو اکٹھا رکھا جاسکتا تھا۔ تاہم اصل حقیقت اس وقت سے بالکل مختلف ہی رہی ہیکہ جہاں اس کا آئین ملک کو ایک معاشرتی سیکولر جمہوریہ کہتا ہے لیکن ملک صرف ایک نسل پرست ہندو ریاست کے طور پر ہی کام کرتا رہا ہے۔ تاہم اب یہ بلبلا واضح طور پر پھٹ چکا ہے اور اس کے اندر چھپی منافقت بے نقاب ہو گئی ہے۔ ضمیراکرم نے مزید کہا کہ ہندوتوا کے عفریت کا مستقبل قریب میں مزید پھلنے پھولنے کا امکان ہے۔ ڈاکٹر مجیب افضل نے ضمیراکرم کی گفتگو سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس بی جیپی پر غلبہ حاصل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ ضلعی سطح سے مرکز تک پارٹی کے ہر جنرل سیکرٹری کو انتہا پسند تنظیم کی طرف سے نامزد کیا جاتاہے۔ ہندوستانی ریاست کا موجودہ دور اس کے خودساختہ سیکولرزم کو ہندوتوا نظریات کی طرف موڑ رہا ہے اور یہ بات ان کی انتخابی فہرستوں سے بھی اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جہاں تقریبا 70 سے 80 فیصد منتخب امیدوار ہندو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بے تحاشا تنوع ہندو اشرافیہ میں خوف کا باعث بھی ہے۔ اس سے قبل عامر عباسی نے بابری مسجد کیس کا باضابطہ تجزیہ قانونی نقط نظر سے پیش کیا۔ 1528 میں قائم ہونے والی مسجد کی ایک مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے اسپیکر نے اس بات سے آگاہی دی کہ تنازعہ کس طرح شروع ہوا اور پھر دونوں طرف سے اٹھائے گئے نکات پر قانونی جنگ کے مختلف مراحل کا ذکر کیا۔ ہائیکورٹ کے وکیل نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں متعدد واضح تضادات اور نقائص پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے نیبھارت کی سیاست کے اصل تانے بانے کو بے نقاب کر دیا ہے اور دو قومی نظریہ کو موثر انداز میں دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ خالد رحمن نے اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فعال سفارتی حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔