بھارت کی نسل پرستی اور ہندو بالادستی کے نظریات کے بارے میں خشونت سنگھ کے الفاظ قابل ذکر ہیں:وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد:وزیرِ اعظم عمران خان نےبھارت کےمعروف مصنف خشونت سنگھ کےایک مضمون کاحوالہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خشونت سنگھ نے دیکھ لیا تھا کہ نسلی تفاخر کے نظریے کے ساتھ بھارت کس راہ پر چل نکلا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کہ بھارت کی نسل پرستی اور ہندو بالادستی کے نظریات کے بارے میں خشونت سنگھ کے الفاظ قابل ذکر ہیں ۔خشونت سنگھ نے  نسلی تفاخر کے نظریے کی جو پیش گوئی کی تھی آج بھارت اسی راہ چل پڑا ہے۔ 

خشونت سنگھ نے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ نفرت کی بنیاد پر بننے والا گروہ ڈر اور خوف پیدا کرکے اپنا وجود برقرار رکھتا ہے ۔بھارت میں جو لوگ سکھ اور مسلمان نہ ہو کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔خشونت سنگھ نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب ہندو بالادستی کا نظریہ لے کر پیدا ہونے والی تنظییمں اپنے علاوہ سب کیلئے خطرہ ہوں گے ۔
واضح رہے کہ بھارت کے معروف صحافی، مصنف اور کالم نگار خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ بطور ادیب انھیں سب سے پہلے پہچان برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے ناول’ٹرین ٹو پاکستان‘ سے ملی جسے 1954 میں عالمی شہرت یافتہ گرووپریس ایوارڈ دیا گیا۔ خشونت سنگھ 1980 سے 1986 تک بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا ۔لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجاً انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

خشونت سنگھ نے بائیں بازو کے تاریخ دانوں اور مغرب سے متاثر نوجوان طبقہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے لکھا کہ کہ کل کویہ اسکرٹ پہننے والی خواتین، گوشت کھانے والے افراد، شراب پینے والوں، مغربی فلمیں دیکھنے والوں، سالانہ مذہبی عبادت نہ کرنے اور مندرنہ جانے والوں ، منجن کے بجائے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے والوں ، وید حکیموں کے بجائے ایلو پیتھک ڈاکٹرز کو ترجیح دینے والوں ، جے سری رام کہنے کے بجائے ہاتھ ملانے یا بوسہ دینے والوں کے خلاف نفرت میں بدل جائے گا۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

خشونت سنگھ کے مطابق اگر ہمیں انڈیا کو زندہ رکھنا ہے تو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا۔

وزیراعظم کی جانب سے شیئر کیا جانے والا یہ پیراگراف خشونت سنگھ کی کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا ‘‘ سے لیا گیا ہے جو 2003 میں شائع ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی نے حال ہی میں شہریت کے متنازع ترمیمی بل (سی اے بی) کو دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے قانونی شکل دی ہے۔ اس بل کو مختلف حلقوں کی جانب سے مسلم مخالف کہا جارہا ہے۔ متنازع بل کیخلاف بھارت بھر میں پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔

بھارت میں پہلی بار 1955ء میں شہریت کا قانون متعارف کرایا گیا تھا جس میں مختلف حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئیں، اس قانون میں حالیہ ترمیم کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی 6 اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، جن میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں۔

اس بل کی سب سے متنازع بات جس پر سب سے زیادہ رد عمل سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے، یعنی آئندہ ان ممالک سے بھارت آنیوالے مسلمانوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔

ترمیم سے قبل اس قانون کے مطابق شہریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی شخص کو (بلا تفریق مذہب و نسل) بھارت میں 11 سال رہنا ضروری تھا، ایسا شخص اگر شہریت کیلئے درخواست دے تو حکومت اسے منظور کر سکتی تھی تاہم نئے قانون کے تحت پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادریوں کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے 5 سال کر دیا گیا ہے۔اس نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 31 دسمبر 2014ء سے قبل بھارت آنیوالی مذکورہ برادریاں فائدہ اٹھاسکیں گی۔ تاہم ان میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ بھارتی انٹیلی جنس ادارے کے مطابق اس قانون سے ابھی 30 ہزار سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی مودی کابینہ نے یہ بل 4 دسمبر کو منظور کیا جبکہ 9 دسمبر کو لوک سبھا نے اس بل کی منظوری دی، 11 دسمبر کو متنازع شہریت کا قانون (سی اے بی) راجیہ سبھا سے بھی منظور کرالیا گیا، اور اب بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن