سن ونجلی دی مٹھری تان‘ ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘ وے ونجلی والڑیا جیسے خوبصورت اور نورجہاں کے سدابہار نغموں پر اپنے رقص سے جادو بکھیرنے اور اپنی فنکارانہ صلاحیت سے لاتعداد فلموں کو امر کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم اس دنیا سے رخصت ہوگئیں وارث شاہ کے کردارہیر کا سا حسن وجمال رکھنے والی اداکارہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وارث شاہ فلم ہیر رانجھا کی ہیروئین کو دیکھ لیتے تویقینا کہہ اٹھتے کہ آج ہیر نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے لیکن یہ ایک کائناتی سچائی ہے کہ اس دار فانی کو ہر ذی روح نے چھوڑنا ہے اور اس تلخ حقیقت کی طرف وارث شاہ نے اپنے کلام میں ہیر کی زبانی اقرار کروایا ہے ہے کہتے ہیں
ہیر آکھیا جوگا جھوٹ آکھیں
کون رٹھڑے یارملاوندا اے
ایہا کوئی نہ ملیا وے میں ڈھونڈ تھکی
جہیڑا گیاں نوں موڑ لیاؤندا اے
فردوس بیگم نے تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایابلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو اپنے زمانے میں وہ شہرت ملی جو کسی اور پنجابی ہیروئین کو نصیب نہ ہوئی فلم ہیر رانجھا میں میں فردوس کے ہمراہ اعجاز درانی تھے جنہوں نے رانجھا کا کردار ادا کیا ہیر جہاں خوبصورتی کا مجموعہ تھی وہاں رانجھا بھی مرقع حسن تھا گاؤں کے کھیتوں اور سرسبز فصلوں میں لہلہاتی محبت اور زمانے کے گرم تھپیڑے کہانی کا موضوع ہیں بانو قدسیہ نے لکھا کہ عشق حقیقی اور مجازی کے راستے آگے چل کر ایک ہوجاتے ہیں عشق حقیقی مجذوبیت کا روپ دھار لیتا ہے اور عشق مجازی مجنونیت کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے رانجھا ہیر کے حسن و جمال کے قصے سن کر اسکا گرویدہ ہوا اور جوگی بن بیٹھا فلم کی کہانی مکالمے عکسبندی فردوس کی صلاحیتوں کے جوہر اور ملکہ ترنم کے لازوال گیتوں نے فلم میں ایک نئی روح پھونک دی وارث شاہ کا حزن اور فلم کا سوزوگداز آپس میں گھل مل گئے اور دل کی فضا کو غمگین کردیتے ہیں فردوس بیگم کو شہرت درحقیقت ملنگی اور ہیر رانجھا سے ملی آنسو ضدی اور بے شمار پنجابی فلموں میں انہوں نے خود کو منوایا اس جہان فانی میں جو آیا اس نے جانا ہے آج نجانے کیوں ہیر رانجھا کی ہیر کا دکھ اور فردوس کی موت کا دکھ رل مل گئے ہیں اور دکھ جب باہم ملتے ہیں تو ہر طرف حزن اور سوزوکرب بھر دیتے ہیں اور انجانے سفر کا نوحہ پڑ ھنے لگتے ہیں
مینوں رکھ لے بابلا ہیر آکھے
مینوں لے چلے بابلا لے چلے او دور
فلموں کے عروج کا زمانہ تھا جب محنت لگن اور کام کرنے کی لگن سے شاہکار جنم لیتے تھیاور وہ فلمیں یقیناہمارے لئے اثاثہ ہیں جن میں زندگی کی حقیقتوں کو بڑی خوبصورتی سے سمودیا گیا ہے ہیر رانجھا اسی کا عملی ثبوت ہے بقول وارث شاہ
وارث شاہ جہاں تے لکھ ہیراں
اتے رانجھیاں دی نئیں تھوڑ ہیرے
فردوس کی وفات سے فردوس نہیں بلکہ ہیر دنیا سے رخصت ہوگئی اور اپنے پیچھے اپنا لازوال کام چھوڑ گئی۔