ماضی کے لاہور میں نون لیگ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہ ہوتا کہ لاہورنون لیگ کا گڑھ تھا۔مگر ’اب دو ہزار بیس ہے‘ جو بہت نہ سہی ،کافی حد تک مختلف ضرورہے۔تب اور اب کی نون لیگ میں بنیادی فرق تو یہ ہے کہ اسکی قیادت تاحیات نااہلی کے بعد عملاً سیاست سے باہر ہے۔ اب اس کا کردار اس پہلوان جیسا ہے جو بڑھاپے میں خلیفہ کا لقب اختیار کر کے اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر داؤ پیچ بتانے کے ’شغل‘ سے اپنی حسرت پوری کرتا ہے۔تاہم سرکاری مشینری اور سرمائے کی طاقت سے ، سیاست کرنے والی نون لیگ کے پاس ، سرمائے کی اب بھی کوئی کمی نہیں کہ ایک سے ایک بڑا سرمایہ دار اپنی ’خدمات‘ پیش کرنے کو آج بھی تیار ہے، گوسرکاری مشینری آج براہ ِ راست اس کے کنٹرول میں نہیں البتہ اس کی باقیات ( اثر و رسوخ) اب بھی بہت حد تک برقرار ہے۔ رہی بات مقبولیت کی تو اسے کرپشن الزامات کاگھن چاٹ رہا ہے کہ نون لیگ کا ’قلعہ‘ لاہور سے ، پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی تین نشستیں اُچک لے جانے میں کامیاب رہی۔ تنظیم کے موجودہ صدر کرپشن الزامات میں ’سلاخوں کے پیچھے‘ ہیں۔جیسا کہ چشمِ فلک نے گوجرانوالہ میں دیکھا کہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہوتے ہوئے بھی ، بڑا جلسہ تو ہوا مگروہ پاور شو ممکن نہ ہو سکا جو متوقع تھا۔ وجہ ’ کرپشن الزامات کی آلودگی‘ ہی ہے۔ گذشتہ کئی دِنوں سے مریم نواز نے تنِ تنہا ،دن میں کئی کئی ریلیوں کی قیادت کر کے اپنے ورکرز کو اپنی پُر جوش اور ولولا انگیز تقاریرسے ،متحرک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ڈی ایم میں صرف نون لیگ ہی نہیں دیگر پارٹیاں بھی ہیں،جن میںپی پی پی کا لاہور میں وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ بد قسمتی سے دیگر متعدد چھوٹی پارٹیاں ایسی ہیں جن کی قیادت موجودہ پارلیمانی سسٹم سے ہی باہر ہے یا ان کی مقبولیت کا گراف بنیادی لکیر کو چھو رہا ہے ۔البتہ جے یوآئی (ف) کی قیادت ’نان الیکٹڈ‘ ہونے کے باوجودمدرسوں کے طلبہ کی افرادی قوت کے بل بوتے پر اپنا اثر ضرور رکھتی ہے۔پی ڈی ایم کی قیادت بھی ان کے پاس ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت کی بنیاد پر نہ صرف اپنی اپنی باری خوب انجوائے کی بلکہ ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا موقع بھی نہیں جانے دیا، آج نون لیگ یا پی پی پی کی قیادت جن کرپشن کیسز کی بدولت نیب کی پیشیاں بھگت رہی ہے یہ ان دونوں کے ہی دورِ اقتدار میں بوئے گئے بیجوں کا ثمر ہے۔اب یہ مانیں یا نہ مانیں، ’ کرپشن الزامات‘ نے 2018کے انتخاب میں ان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔مبینہ طور پر نواز شریف نے پی ڈی ایم قیادت اور مریم نوازکو سخت موقف اختیار کرنے کا کہا تھا۔ یہ سخت موقف غالباً اسمبلیوں سے استعفوں کا تھا۔پی پی پی قیادت نے اس کی مخالفت کی ۔مگر میڈیا نے اسے خوب ہائی لائٹ کیا کہ یہ آپشن پی ٹی آئی کی پریشانیوں میں تلاطم برپا کر دے گا۔ وہ شاید اس کے آئینی تقاضوں سے جان بوجھ کر چشم پوشی کر رہے ہیں یا واقعی انہیں اس کے مضمرات کا علم نہیں؟( میرا خیال ہے ایک خاص بیانیے کی تشہیر کے مقصد کے پیشِ نظر وہ جان بوجھ کر ’’یملے‘‘بنے ہوئے ہیں) تاہم پی ڈی ایم قیادت نے استعفوں پر واضح موقف کی بجائے اسے 31دسمبر تک ’ٹال ‘دیا اور ’لانگ مارچ یا دھرنا‘ کے آپشن کو ’کور کمیٹی‘ کے کندھوں پرڈال دیا۔ اس اعلامیہ کو پسپائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ’ اپوزیشن‘کو یہ بھی اندازہ ہو ا لگتا ہے کہ جلسے جلوسوں، استعفوں،لانگ مارچ یا دھرنوں جیسے ہتھکنڈوں سے عمران خان سے چھٹکارا ممکن نہیں، جب تک کہ امپائر کی انگلی کا اشارہ نہیں ہوتا، جو فی الحال ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے۔۔!
Dec 19, 2020