کنگز پارٹی کی آسامی خالی نہیں

Dec 19, 2020

ملک عاصم ڈوگر …منقلب

پاکستان کی مدر پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ (بعد میں پاکستان مسلم لیگ ) علیحدہ وطن کے حصول کے بعد وارثین کے ہاتھوں تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے۔لیکن ہر ایک مسلم لیگ کے لیڈر کا دعویٰ یہی رہا کہ قائد اعظم والی پاکستان مسلم لیگ کے جملہ حقوق اس کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اگر آپ ملتان جائیں تو سوہن حلوے کی ہر دکان اصلی ہونے کی دعویدار ہے۔ خاص ملتانیوں کے علاوہ اکثریتی لوگ غلط دکانوں سے حلوہ خرید لیتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ بھی اتنی ہی برانچیں بنا دی گئیںاورہر برانچ کے بورڈپر موٹے حروف سے لکھ دیا کہ یہ مسلم لیگ کی اصل برانچ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد بلکہ زندگی میں ہی مسلم لیگ کے اندر دھڑے بندیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک جانب یونینسٹوں سے تازہ تازہ مسلم لیگی بنے پنجاب کے جاگیردار لیڈر اور دوسری جانب وہ لیڈر جو پاکستان  بنانے کی جدوجہد کے دعویدار تھے۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی تک جاری اس کشمکش کے نتیجے میں سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں دخیل ہونے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔ مسلم لیگ کی قیادت قومی آئین کی تشکیل کا بنیادی کام بھی نہ کر سکی۔ آئینی فریم ورک کی عدم موجودگی میں غیر سیاسی طاقتیں سسٹم چلانے کی طاقت حاصل کر کے اس قدر مضبوط ہو گئیں کہ 1962 میں مسلم لیگ کے دو حصے کر دیئے۔ جاگیرداروں پر مشتمل بڑے حصے نے  اصل مسلم لیگ سے الگ ہو کر کنگز پارٹی، کنونشن مسلم لیگ بنا لی اور کونسل مسلم لیگ کی صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو کامیاب کرایا۔ کونسل مسلم لیگ بکھر گئی۔ یہی وہ دن تھا جب مسلم لیگ نے آفیشلی کنگز پارٹی کا روپ اختیار کر لیا۔ اس سیاسی خلا کو ایوب خان کے وزیر خارجہ اور ذہین سیاستدان ذوالفقار بھٹو نے عوام کی محرومیوں کے پیش نظر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پْر کیا۔ اس لئے 70 کے انتخابات میں کونسل مسلم لیگ یا مسلم لیگ قیوم مغربی پاکستان میں جگہ نہ بنا سکیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو حقیقی سیاسی عمل سے دور غیر سیاسی طاقتوں کی آلہ کار بننے کوترجیح دیتی رہیں۔ اجتماعی سیاسی سوچ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ضیاء الحق کے دور آمریت میں قومی سیاست کو علاقائیت، لسانیت، برادری ازم اور مذہبی گروہیتوں تک تقسیم کرد یا گیا۔ 1988 کی غیر جماعتی  انتخاب سے جنم لینے والی مسلم لیگ جونیجو نے ذرا سی مزاحمت دکھائی تو اس کے مقابلے میں اند رسے ہی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی قیادت  میں نئی کنگز پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی جو آگے چل کر مسلم لیگ ن بنی۔ نواز شریف کوحاصل ’’آشیر باد‘‘  اور سرمائے کی طاقت نے انھیں ایسا ماحول فراہم کیا کہ اگلی ایک دہائی تک وہ بلا شرکت غیرے مسلم لیگ کے پروپرائیٹر قرار پائے۔ بنا کسی سیاسی جدوجہد کے وہ دوبار وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے لیکن 1999 میں اپنے ہی لانے والوں کے خلاف جرأت رندانہ کی پاداش میں جلاوطن کر دیئے گئے۔ ویسے تو مسلم لیگ برانچیں جناح، ضیا اور فنکشنل کے نام سے بھی موجود تھیں ۔ لیکن مشرف دور میں میاں اظہر اور چوہدری برادران والی مسلم لیگ ق کواصلی مسلم لیگ کا اعزاز حاصل ہوا۔ حالات نے پلٹاکھایا۔ پرویزمشرف کے این آر او کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف بھی مستفید ہوئے۔ پیپلز پارٹی سے مفاہمت کے باوجود لانگ مارچ اور یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کرانے میں پیش پیش رہے۔  لیکن پیپلز پاٹی کے ساتھ مل کر تیسری بار وزیر اعظم بننے کی ترمیم ضرور کروا لی۔ 2013 میں وزار ت اعظمیٰ کا ہما ایک بار پھر نواز شریف کے سر بیٹھا۔ اس بار سابقہ تجربات کے پیش نظر نواز شریف پہلے سے گھاگ ہو چکے تھے۔ دوران جلاوطنی اپنے بین الاقوامی رابطے پہلے سے زیادہ مضبوط کر چکے تھے۔ 
جدہ اور لندن میں رہ کر لابنگ فرمز اور بین الاقوامی کھلاڑیوں سے راہ رسم بڑھا لئے تھے۔ اس لئے دھیر ے دھیرے مقامی اسٹیبلشمنٹ کو کینڈے (قابو) میں لانے کے لئے پر تولنے شروع کئے۔ تو اچانک پانامہ کی وبا پھوٹی جس نے بہت سے ملکوں میں حکمرانوں کو شکنجے میں لیا۔ نواز شریف بھی اس کی زد میں آئے۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرد یا۔  نیلسن منڈیلا سے متاثر نواز شریف اس بار بھی چند ماہ  ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ سکے۔ اب لندن میں علاج کی غرض سے موجود نواز شریف پی ڈی ایم کے فور م سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات دے رہے ہیں۔ پارٹی اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف کے مزاحمتی اور مفاہمتی بیانئے میں تقسیم ہے۔ مریم نواز کی زیر قیادت لاہور جلسے کی ناکامی نے پارٹی میں مزید اضطراب پیدا کردیا ہے۔ لانگ مارچ ، جلسوں اور ریلیوں سے نا آشنا مسلم لیگ ن اس وقت ’’آفیت ‘‘کی تلاش میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کنگز پارٹی کی اسامی فی الحال خالی نہیں ہے۔ 
٭…٭…٭

مزیدخبریں