کرونا نے عظیم انسان اور محب وطن آرمی افسر لیفتینٹ جنرل محسن کمال کی جان لے لی، اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔جنرل محسن کمال کے ساتھ میری بہت یادیں وابستہ ہیں حالانکہ ہمارے ملازمت کے مرکز ہمیشہ دور دور رہے۔میں ان کو کبھی سر اور کبھی بھائی جان کہہ کر مخاطب کرتا تھاجس پر میجر رشید اکثر بات میں جنرل محسن کا ذکر کرتے ہوئے کہتے کہ آپ کے بھائی جان کی یہ بات، آپ کے بھائی جان یہ کہہ رہے تھے۔ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرلمحسن کمال کور کمانڈر راولپنڈی اور ملٹری سیکرٹری جی ایچ کیو رہے۔جنرل محسن کمال جب لاہور میں تھے تو اکثر اوقات ملاقات یا پھر فون پر رابطہ رہتا کبھی وہ مصروف یا باہرمشقوں پر ہوتے تو میں باجی سے کہہ دیتا اور پھر بھا ئی جان محسن کا فون آجاتا وہ بہت نفیس مزاج اور سچائی کو پسند کرنے والے انسان تھے ۔ان کی بیگم صاحبہ بھی بہت حلیم طبع اور نفیس انسان ہیں ایک مرتبہ میں نے ناراضی میںکہا کہ باجی تین دن ہوگئے ہیں مجھے فون کرتے اور بھائی جا ن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ باجی نے مجھے بتایاکہ محسن صاحب پیشہ وارانہ مشقوں میں مصروف ہیں دن کیا رات کیا نہ انہیں خبر ہے نہ ہمیں ۔ اس لیے جب وہ ٹریننگ پر ہوں آپبا لکل ناراض نہ ہوں ۔جنرل محسن کمال اپنے نام کے معنوں کے مطابق احسان کرنے والے اور عسکری فرائض انسانی رویوں اور رشتوں میں کمال مہارت رکھتے تھے۔میں دہلی پہنچا تو پتہ چلا کہ زلزلہ نے کشمیر کی سرسبز وادی کو لہولہو کر دیا ہے، میں نے فوری طور پر محسن صاحب کو فون کیا اور خیریت پوچھی انہوں نے بتایا کہ شائد ان کے انکل کی ڈیتھ ہوئی۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ انہیںخبر ملی کہ ان کی یونٹ کے مولوی صاحب خطبہ میں فرقہ وارانہ گفتگو کرتے ہیں محسن صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا اور الزام دہرایا تو مولوی صاحب نے کہاکہ ہاں یہ سچ ہے اور قرآن کہتاہے کہ جھوٹ نہ بولو لہٰذا میں سچ جاری رکھوں گا۔محسن صاحب نے کہا کہ قرآن میں سچ کی ہدایت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یتیموں ،مسکینوں ، ہمسائیوں ،غریبوں کا خیال رکھو کیاتم نے کبھی کسی یتیم مسکین کا خیال رکھا ؟آپ کے ہمسائے کتنی غربت کے ساتھ وقت گزاررہے ہیں تم نے کبھی ان کا حا ل دریافت کیا ؟ان کی مدد کی ؟اس طرح کے اور بھی سوالات کیے۔ مولوی صاحب جو سچ پر عمل کرنے کی قرآنی ہدایت کے بارے میں بتا چکے تھے ندامت سے خاموش ہوگئے اور نظر یں جھکا لیں اور معافی کی درخواست کی ۔جنرل صاحب نے بتایا کہ اس کے بعد کبھی شکایت نہ آئی ۔محسن صاحب جب کو ئٹہ میں متعین تھے تو میں ایشین ڈوپلمنٹ بنک اور فنانس ڈپارئمنٹ گورنمنٹ آف بلوچستان کی تربیتی ورکشاپ میں سرینا ہوٹل کوئٹہ میں تھا میںنے اطلاع دی تو جنرل محسن نے اپنی گاڑی بھیجی اور یوںہم کافی دیر تک گپ شپ کرتے رہے ۔ان کی گفتگو میں معاشرتی ناہمواریوں ،سیاسی اور انتظامی نظام کی خامیوں پر بات چیت ہوتی۔ انہیں تحقیق میں بھی دلچسپی تھی ان کے تحقیقی مقالے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے جرنل میں بھی شائع ہوئے میں جب میںایریاسٹڈی سنٹر قائداعظم یونیورسٹی میں ایم فل کا مقالہ بعنوان مارٹن لوتھر کنگ جو نیر کی سیاسی جہدو جہد لکھ رہا تھا تو انہوں نے مواد کے بارے میں پوچھا اور ایک افسرکی ڈیوٹی لگائی کہ عسکری ادارے کے کتب خانوں سے متعلقہ مواد مہیا کرے۔ چند دنوں کے بعد ریسرچ اور مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی افریقی امریکن کے سیاسی حقوق کے بارے میں کا فی مواد کا بنڈ ل موصول ہوا اور یقینا بہت ہی مفیدکتابیں تھیںجن کی مدد سے میں نے اپنا مقالہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کی نیر نگرانی مکمل کیا جو بعد ازاں کتاب کی صورت میں شائع ہوا۔جنر ل محسن کے لہجے میں بیک وقت پیار اور عسکریت رچی ہوئی تھی وہ سیالکوٹ میں پیداہوئے مظفر آباد سے تعلق رکھتے تھے کورکمانڈر اور ملٹری سیکرٹری کے اہم عہدوں پر فائز رہے بہت ہی عملیت پسند تھے اور نفاست ان کی فطرت کا اہم ترین حصہ تھا۔ کوئی مسئلہ ہوتا تو ایک دوجملوں میں اپنا موقف بھرپور انداز میں بیان کر دیتے ۔جنرل محسن صاحب کوئٹہ میںمیجرجنر ل کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے ایک مرتبہ میں نے کوئٹہ فون کیا تو مجھ سے بات کرتے کرتے کچھ خفگی سے کسی سے مخاطب ہوئے میں نے پوچھا بھائی جان کس سے لڑرہے ہیں ۔کہنے لگے یہ آپکی بھابی ہیں، نوکر سے کہہ رہی ہے کہ اس کو سمجھ نہیں آتی، بار بار سمجھا نے کے باوجودیہ نہیں سمجھتا ،تو میں اس کو کہہ رہاہوںکہ اگر پہلی بارسمجھا نے سے اس کو سمجھ آجاتی تو یہ آج نوکر نہیں بلکہ میجر جنرل ہوتا۔میں بہت ہنسا پھر انہوں نے بھی ہنسنا شروع کردیا ۔ایک مرتبہ کوٹ عبدالمالک والے گھر میں مجھے فون آیا۔ یہ جنر ل محسن کمال کے بیچ میٹ میجر رشید تھے بہت اچھے ملنسار انسان ہیں ان کابیٹا ہارون بھی اس وقت آرمی افسرہے انہوں نے بتایا کہ جنرل محسن نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ اخترسندھو کو تلاش کرو کافی مہینوں سے اس سے بات نہیں ہوئی۔ میرے پاس ان کا نئی پوسٹنگ کا نمبرنہ تھا میجر رشید نے نمبر دیا اور
پھر میرا رابطہ بحال ہوگیا ۔اس طرح پھر کئی مرتبہ رابطہ منقطع ہوجاتااور پھر بحال ہوجاتا۔جنرل محسن کمال کورکمانڈ رراولپنڈی تھے اور آرمی چیف کے لیے ان کا نام بھی آرہاتھا اس وقت رابطہ بحال ہو ا۔ میں نے فون کیا ان کے سیکرٹری نے کہاکہ نمبر دے دیں وہ مصروف ہیں۔ میں نے اپنا نمبر دے دیا اور چندگھنٹوں بعد ان کافون آگیا ان کی زودار ہیلو کی آواز کو فوراََپہچان گیا اور سلام کے بعد میں نے گلے شکوے شروع کردیئے۔جنرل صاحب کہنے لگے تم پہلے اپنے گلے کرلو پھر میں بات کروں گا۔میں نے کہا بھائی جان میرا گلہ تویہ ہے کہ آپ کے ساتھ ساتھ میں بھاگ نہیں سکتا نہ آپ کے دفتروں کے چکر لگا سکتا ہوں، میرا کام پڑھنا پڑھانا اور لکھنا ہے میں توآپ کو پکڑ نہیں سکتا کم از کم آپ تو فون کرسکتے تھے ؟ہاں جی ۔اب آپ کی بات ختم ہوگئی ہے؟اچھا سنو، مجھے کینسر ہوگیاتھا ۔میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں میں اس فقرہ پریوں ششدر ہوا کہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہوں مگر وہ یوں بات کر رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ میرے منہ سے بے ساختہ اوہ مائی گاڈ نکلا۔انہوں نے فوراََ کہا، اوکوئی مسئلہ نہیں وہ ختم ہوگیااور میں بالکل ٹھیک ہوگیا، میرے منہ سے شکر الحمدللہ نکلا ۔پھر ہمارا رابطہ چلتارہا۔2014میں میری کتاب مسلم سکھ تعلقات شائع ہورہی تھی تومیں نے ان سے چند جملے لکھنے کے لیے درخواست کی۔ انہوں نے کہاکہ اس کتاب میں اگر سکھوں کے خلاف لکھا ہے تو مجھ سے کچھ لکھو انے کی ضرورت نہیں۔میںنے کہاکہ بھائی جان یہ تحقیق کی کتاب ہے اور تحقیق کسی کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ سچ کی ترجمان ہوتی ہے، پھر ان کی رائے میری کتاب کے ٹایٹل کاحصہ بنی ۔ایک مرتبہ میں اسلام آباد میں نوائے وقت کے دفتر میں جاوید صدیق صاحب کے پا س بیٹھا تھا اور میں نے فون کیا کہ میں نوائے وقت میںہوں اور ملنا چاہتاہوں تو انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے اور وہ ان کو ائیرپورٹ پر چھوڑنے جارہے ہیں ۔میں نے کہاکہ دوکتابیں جاوید صدیق صاحب کے پاس چھوڑکر لاہورجارہا ہوں۔