اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں اپوزیشن اسلام آباد میں ایک ہفتہ بھی گزار دے تو استعفا کے بارے میں سوچنا شروع کردوں گا۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں مگر ان کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کو ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم لانگ مارچ کردیں تو پتہ چل جائے گا کہ استعفا ان کو دینا پڑے گا یا مجھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ فوج کے اوپر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جمہوری حکومت کو ہٹا دو۔ یہ ان کی ڈیموکریٹک موومنٹ ہے۔ پاکستان کی فوج میرے اوپر نہیں بیٹھی، میرے نیچے ہے۔ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں تنقید ہو رہی ہے۔ کیا پاکستان آرمی کے اندر اس پر غصہ پایا جاتا ہے؟۔ عمران خان نے جواب دیا کہ جنرل باجوہ ایک سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔ ان کے اندر ٹھہراؤ ہے۔ اس لیے وہ برداشت کر رہے ہیں۔ کوئی اور فوج میں ہوتا تو بڑا ردعمل آنا تھا۔ غصہ تو اس وقت فوج کے اندر بہت ہے۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ برداشت کر رہی ہے۔ کیوں کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کیسے باہر گئے اور اب ان کو واپس کیسے لائیں گے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اب میں آپ کو کیا بتاؤں، یہ ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ ہم چاہ رہے ہیں اس کو ڈی پورٹ کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تو مشرف کے دور میں این آر او لیکر چلا گیا تھا، پھر جوٹ بولتا رہا کہ کوئی ڈیل نہیں کی۔ آخر سعودی شہزادے نے آکر بتایا کہ معاہدہ ہوا ہے۔ اس بار نواز شریف نے ایسی اداکاری کی ہے کہ بالی ووڈ میں آسکر مل جائے گا۔ انہوں نے واضح جواب دینے کے بجائے یہ کہا کہ نواز شریف کو واپس لانے کیلئے کوشش کریں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنی دیر لگے گی۔ وقت سے پہلے سینٹ انتخابات کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری مرضی ہے، ہم جب بھی الیکشن کریں۔ شو آف ہینڈز کو مطلب اوپن بیلٹ ہے۔ اس میں سب کو پتہ ہوتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ عمران خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے رائے دی کہ آئینی ترمیم کے بغیر اوپن بیلٹ انتخابات ہوسکتے ہیں اور اس بارے میں قانون کی تشریح کیلئے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمشن سے درخواست کریں گے ایک مہینہ پہلے انتخابات کروائے جائیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ میں منتخب وزیراعظم ہوں‘ فوج میرے ماتحت جبکہ دیگر ادارے بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ مخالفین جمہوری حکومت ہٹانے کے لئے فوج پر دباؤ ڈال رہے ہیں‘ ایسا کرنے والوں پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زندگی ایک جدوجہد کا نام ہے۔ جدوجہد سے تجربہ ملتا ہے۔ گزشتہ دو سال بہت مشکل تھے۔ قرضے کم نہ ہوں تو نئے قرض لینے پڑتے ہیں۔ قرض مانگتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے پیسے نہیں تھے۔ تقاضوں پر دوست ممالک سے پیسے لینے پڑے۔ بجلی کا پوری طرح اندازہ نہیں تھا۔ بجلی مہنگی 17 کی بنا کر 14 کی بیچ رہے ہیں۔ کب کیسا سوئچ آن کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تبدیلی آ ئی ہے‘ 5 سال بعد کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا وہ جیلوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ سارے ڈاکو اکٹھے ہو کر این آر او مانگ رہے ہیں۔ ان کی باتیں مان لیتے تو نیب دفن ہو جاتی۔ نیب میں جو تبدیلیاں یہ لائے اگر مان لیتے تو این آر او مل جاتا۔ ان کی تجویز کردہ شقیں مان لیتے تو ان کے کیسز ختم ہو جاتے۔ یہ کرپشن کے کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں۔ جیلوں میں موجود غریبوں کا کیا قصور ہے؟۔ غریب جیلوں میں مر جاتے ہیں کیس ہی ختم نہیں ہوتے۔ اربوں کی چوری کرنے والوں کو معاف کر دوں؟ اگر یہ کر دیا تو اﷲ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ سرکس لگی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ کن وقت ہے۔ ان کے 11 سال میں ایک دوسرے کیخلاف بیانات سن لیں۔ نواز اور زرداری نے ایک دوسرے کیخلاف کیسز بنائے۔ یہ مجھے کہہ رہے ہیں نیب ختم کر کے این آر او دوں۔ ان کو ایک ایسا آدمی مل گیا ہے جو ان کو چھوڑے گا نہیں۔ حکومت ملی تو زرمبادلہ ذخائر صفر پر پہنچ چکے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سرکلر ڈیٹ کس طرح بڑھتا ہے۔ میرے پاس بٹن نہیں کہ آن آف کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تبدیلی یہ ہے کہ جو بڑے بڑے نام تھے وہ جیلوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ پہلی بار ہوا کہ چوروں کو این آر او نہیں دیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن نے 36 میں سے 34 شقوں پر ترمیم مانگی۔ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر بلیک میل کیا۔ نواز شریف پر کیس میں نے نہیں پیپلز پارٹی نے بنایا۔ میں ان کو این آر او دوں گا تو پاکستان کا مستقبل تباہ کر دوں گا۔ یہ اس سے بات کر رہے ہیں جس کی 22 سالہ جدوجہد ہے۔ شروع میں جب لاہور کے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی نہیں نکلے۔ جب 15 سال بعد جلسہ کیا تو مینار پاکستان بھر گیا۔ مینار پاکستان تب بھرتا ہے جب لوگ خود چل کر آئیں۔ نواز شریف کو بار بار مینار پاکستان جلسے کا چیلنج دیتا رہا انہیں جلسے کرنے سے کبھی نہیں روکا۔ کرونا کی وجہ سے ملتان میں اجازت نہیں دے رہے تھے۔ یہ سمجھ رہے ہیں ڈرامے کر کے این آر او لے لیں گے۔ ان کی رہی سہی کسر لانگ مارچ میں نکل جائے گی۔ کہتے ہیں عمران خان پتلا ہے ہم فوج سے بات کریں گے۔ فوج حکومت کا ادارہ ہے اور میرے ماتحت ہے۔ فوج میرے اوپر نہیں۔ منتخب وزیراعظم ہوں میرے نیچے ادارہ مجھے گرائے‘ کسی جمہوریت میں ایسا نہیں سنا۔ یہ لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ اچکزئی لاہور میں پنجابیوں کیخلاف بات کر رہا ہے۔ ایک جلسے میں کھڑے ہو کر کہتا ہے بلوچستان آزاد ہو جائے۔ فوج سمیت تمام ادارے میرے ساتھ کھیڑ ہیں۔ ہم نے کرونا میں لوگوں کی جانیں بچائیں۔ کوئی ایسی چیز بتائیں جو پریشر میں آ کر منشور کیخلاف کی ہو۔ یہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کے لائے ہوئے ہیں۔ مشکل وقت سے پاکستان کو نکالا‘ کرونا میں معیشت کو بچایا۔ فوج اور ادارے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو میں اکیلا کیا کر لیتا۔ یہ سارے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پلے ہیں۔ پاکستان کی فوج نے نواز شریف کو پی پی کیخلاف بنایا۔ نواز شریف فوج کی نرسری میں پلا ہے اسے سیاست کا کیا پتا۔ ضیاء الحق نے بیٹے کے ذریعے مجھے وزارت کی پیشکش کی تھی۔ نواز شریف نے 1985ء میں پیسے دے کر پارٹی بنائی۔ اسٹیبلشمنٹ نے ساتھ دیا۔ نواز شریف اتنا جھک جاتا تھا لگتا تھا پالش ہی نہ شروع کر دے۔ جنرل ضیاء نے پی پی سے ڈر کر اس کو تیار کیا۔ اس نے رشوتیں دے کر ملک کا بیڑہ غرق کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے 2013 ء میں اس کی مدد کی۔ اسے تکلیف ہے اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ اس کی مدد کیوں نہیں کی۔ فافن کی رپورٹ پڑھ لیں۔ انتخابات کو پہلے سے بہتر قرار دیا۔ ملک میں سول اور ملٹری کے زبردست تعلقات ہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے۔ آئی ایس آئی کو ان کی چوری کا پتہ لگ جاتا ہے۔ نواز شریف کا جانا دکھ بھری کہانی ہے۔ جو رپورٹ انہوں نے دکھائی وہ تو آس پاس بھی نظر نہیں آتی۔ نواز شریف نے ایسی اداکاری کی کہ بالی ووڈ میں ہوتا تو آسکر مل جاتا۔ اسحاق ڈار اور اس کے بچے باہر بیٹھے ہیں۔ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بیٹے بھاگے ہوئے ہیں۔ کبھی سنا ہے وزیراعظم کے بیٹے کہیں ہم پاکستانی نہیں؟ پی ڈی ایم جو کرنا چاہتی ہے ہرچیز کیلئے تیار ہوں۔ مینار پاکستان میں ورچوئل جلسہ ہوا۔ مینار پاکستان جلسے سے ان کو نقصان ہوا۔ میں جلسوں کا سپیشلسٹ ہوں۔ یہ فلاپ شو تھا۔ قیمے کے نان دے کر مینار پاکستان نہیں بھرا جا سکتا۔ فضل الرحمنٰ مدارس کے بچے جلسے میں لایا۔ میں نے دیکھا نہیں مگر لاہور کے لوگ جلسے میں نہیں تھے۔ زرداری نے دبئی کے 50 اور نواز شریف نے 21 غیر ملکی دورے کئے۔ ملک مقروض ہو رہا تھا اور یہ دورے کر رہے تھے۔ ان کی پارٹی میں اکثریت لوگ مستعفی نہیں ہوں گے۔ ان کو دعوت دیتا ہوں کل نہیں آج استعفے دیں۔ پی ڈی ایم کے استعفوں کا انتظار ہے۔ ان کے پارٹی رہنما استعفے نہیں دیں گے۔ اسلام آباد مارچ کیلئے میں ان کی مدد کروں گا۔ میری ساری مدد کے باوجود یہ یہاں ایک ہفتہ نہیں گزار سکتے۔ اینٹی پاکستانی فورسز پی ڈی ایم کی مدد کر رہی ہیں۔ ہم مقروض ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شو آف ہینڈز کا مطلب اوپن بیلٹ ہے آئینی ترمیم کے بغیر اوپن بیلٹ کرا سکتے ہیں۔ ہم آئینی تشریح کیلئے سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔ پیسے دے کر سینٹ منتخب کرانا کہاں کی جمہوریت ہے۔ سینٹ الیکشن میں پیسہ چلتا ہے اس پر ہم نے اپنے ارکان نکال دیئے تھے۔ گنجائش ہے سینٹ الیکشن ایک ماہ پہلے کرا سکتے ہیں ہم کیوں نہ کریں ؟ بہتر ہے اوپن بیلٹ ہو‘ اس سے کرپشن ختم ہو گی۔ میرٹ پر سینیٹر آئیں گے تو اسمبلی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ دعا کر رہا ہوں، انتظار کر رہا ہوں اپوزیشن استعفے دے یہ ملک کے لیے اچھا ہوگا، وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں سول اور ملٹری کے زبردست تعلقات ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم جو کرناچاہتی ہے ہر چیز کیلئے تیار ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہوں نے استعفے دئیے تو پاکستان کی بہتری ہوگی۔ پاکستان میں بیروزگاری اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نوکریاں پرائیویٹ سیکٹر دیتا ہے۔ سرکاری ملازمتیں کم ہوتی ہیں۔ ہم نے ریڈیو پاکستان اور اسٹیل ملز سے چند ہزار لوگوں کو نکالا ہے۔ باہر ممالک کی کمپنیوں نے ہزاروں افراد کو نوکریوں سے نکالا۔ امارات ایئرلائن نے بھی ڈاؤن سائزنگ کی۔وزیراعظم نے کہا کہ سٹیل ملز کی بحالی کیلئے تین انویسٹرز آئے ہیں مگر وہ ملازمین کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سے کم ملازمین کے ذریعے وہ ملز چلا سکتے ہیں۔ جب ملز چل جائے گی تو انہی ملازمین کو دوبارہ بلائیں گے۔ ابھی ان کو گولڈن ہینڈ شیک دیا ہے۔ وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ آپ ریاست مدینہ چاہتے ہیں یا چین، ترکی یا پھر ملائشیا جیسا نظام چاہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مدینہ کی ریاست دو اصولوں پر بنی تھی۔ اپنے کمزور طبقے کی ذمہ داری اٹھانا اور سب کیلئے یکساں قانون ہونا شامل ہے اور چین میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔ جس نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا اور 450 سے زیادہ وزیر لیول کے لوگوں کو کرپشن پر سزائیں دیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کر سکتے تو وہاں کوئی کیوں جائیگا؟ ہمارے وزیر نے وہاں جاکر کیا کرنا ہے؟ وزیراعظم نے کہا کہ یہ بالکل غلط خبر ہے، پوری مہم چل رہی ہے، یورپی یونین کے ڈس انفولیب نے بھارت کینیٹ ورک کوبے نقاب کیا، ہماریلوگ ملے ہوئے ہیں، یہاں بیٹھے لوگ اس میں فیڈ کر رہے ہیں۔ مزید برآں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو ایشین ٹائیگر نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو ملک کے بانیان کا خواب تھا۔آزاد جموں و کشمیر میں صحت کارڈ کے اجرا سے 12 لاکھ خاندان مستفید ہوں گے اور صحت کارڈ سے آزاد کشمیر میں 300 سے زائد ہسپتالوں میں مفت علاج کرایا جاسکے گا۔ اسلام آباد میں آزاد جموں و کشمیر کے لیے صحت سہولت پروگرام کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آج سے 35 سال قبل شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ملک میں کینسر کے مریضوں کے لیے علاج کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ دریں اثناء وزیرِاعظم نے معاشی اشاریوں کی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کیلئے فوری اوردیرپا اقدامات پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کی کاروباردوست پالیسیاں سٹاک مارکیٹ میں تیزی، سرمایہ داروں کے اعتمادمیں اضافے کی وجہ ہیں، دنیا بھر میں پاکستان کی مشکل ترین وقت میں معاشی کارکردگی کی پذیرائی ہو رہی ہے، پاکستانی کی پذیرائی کا سہرا معاشی ٹیم کو جاتا ہے، خدا کا شکر ہے کہ ملک مشکل وقت سے نکل آیا ہے۔ مزید ترقی کی راہیں کھولنے کیلئے جامع منصوبہ بندی پر کام ہو رہا ہے انہوں نے یہ بات اپنی معاشی ٹیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو جمعہ کو ان کی زیر صدارت منعقد ہوا اجلاس میں وفاقی وزراء مخدوم خسرو بختیار، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، حماد اظہر، اسد عمر، مشیران عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر عشرت حسین، گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر، معاونِ خصوصی وقار مسعود، صوبائی وزیر خزانہ خیبر پختونخوا تیمور سلیم جھگڑا، صوبائی وزیرِ خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت اور متعلقہ اعلی افسران نے شرکت کی اجلاس میں وزیرِ اعظم کو ملکی معیشت کے بہتر ہوتے ہوئے اعشاریوں کے بارے آگاہ کیا گیا۔