سانحہ سیالکوٹ اور اسکے محرکات

علم ایک نعمت ہے ، جو ہمیں اشرف المخلوق بناتا ہے۔ اصل علم، علم دین ہے جس سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا۔بحیثیت مسلمان دینی احکام پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں فلاح کی طلب رکھنا ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور مکمل طور پر دین اسلام سے جڑے رہنا ،دنیا اور آخرت میں فلاح، کامیابی اور کامرانی کا باعث ہے جبکہ دوسری طرف دین سے دوری دنیا و آخرت میں نقصانات اور خسارے کا باعث ہے۔ جب انسان دین پر عمل پرا ہوتا ہے تو اس کا اخلاق، کردار، گفتار اور اسکے طرز عمل کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن بھی بہتر ہوجاتا ہے ۔سیالکوٹ سانحہ کے بعد آج کل ایک مرتبہ پھر سے توہین رسالت قانون کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں ہے بلکہ اس قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر گزشتہ برس 2020ء میں توہین رسالت کے دوسو مقدمات درج ہوئے جب کہ 1987ء سے2020ء تک مجموعی مقدمات کی تعداد اٹھارہ سو سے زائد ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے میں کوشاں ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اور بین المذاہب ہم آہنگی طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ انکے ادارے نے اس حوالے سے ایک طریقہ کار واضح کر دیا ہے۔ ''ہم نے علما کی ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے، جو اس طرح کے واقعات کی تفتیش کرتی ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ تو وہ پاکستان علماء کونسل یا مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہم سب کو پاکستان کا شہری سمجھتے ہیں اور کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘مگر حقیقت یہی ہے کہ حکومت اپنی کمزور رٹ کے باعث اس جگہ بھی ناکام دکھائی دیتی ہے ۔ سیالکوٹ واقعہ کے بعد جس طرح سری لنکن حکومت نے صبر و بردباری کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے ۔سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 1947ء اور 1948ء میں دونوں ممالک کی آزادی کے فوراً بعد سے ہی آغاز ہو گیا تھا ۔دفاع اور انسداد دہشتگردی میں تعاون نیز فری ٹریڈ معاہدہ پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت کے ہمراہ انتہائی گہرے اور وسیع تر سیاسی و معاشی تعلقات کے باوجود بھی کولمبو کی جانب سے اسلام آباد کے ہمراہ سلامتی شراکت داری کو وسعت دینا دراصل سری لنکا کی جنوبی ایشیائی حریفوں کے ساتھ مذاکرات کی صلاحیت کا شاندار مظہر ہے۔ایک چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے سری لنکا ہمیشہ اندرونی تامل شورش کا مقابلہ کر تے ہوئے براہِ راست خطرات کی زد میں رہا۔1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی طیاروں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا سری لنکا کا فیصلہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ چین اور پاکستان کی اہم مدد سے 2009ء میں تامل شورش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں پاکستان کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا۔تاریخی اعتبار سے پاکستان اور سری لنکا بین الاقوامی فورمز پر بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک غیروابستہ ممالک کی تحریک (نیم) کے ممبر بھی رہے ہیں،فروری 2021ء میں عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان سری لنکا کا پہلا دورہ کیا،جوکہ ہر لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔بلاشبہ سانحہ سیالکوٹ پاکستانی قوم کیلئے دنیا بھر میں شرمندگی کا باعث بنا ہے ۔ البتہ جس انداز میں پاکستانیوں نے من حیث القوم اس طرز عمل کو مسترد کیا ہے وہ مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس واقعہ کو دین سے دوری کا نتیجہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، کیونکہ اسلام کے نزدیک ایک شخص کی جان کو بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے ۔اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا فیصلہ اور سزا کا تعین کرنا بھی ریاست اور عدلیہ کا کام ہے نا کہ کسی شخص کا ۔ سری لنکن فیکٹری منیجر پریا نتھا کمارا کے ساتھ ہونے والا سکوک کسی طور پر بھی بے جا حمایت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دراصل جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے کہ یہ دینی احکامات کا ٹھیک طرح ادراک نہ ہونے اور ذاتی رنجش کے باعث رونما ہو ا ۔ جو کہ اب میڈیا میں سامنے بھی آچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اکرام نے نہ صرف اس طرز عمل کو یکسر مسترد کیا بلکہ شدید مذمت بھی کی ہے۔پوری قوم یک زبان ہو چکی ہے ۔تاجر برادری کا ایثاراور علماء کا اتحاد مثالی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن