کیا صرف باتوں سے ملک چلے گا، کیا ہم باتوں کے علاوہ بھی کچھ کر سکتے ہیں، کیا ہم باتوں کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں، ملک کو بڑے بڑے خطرات کا سامنا ہے، ملک قرضوں کی دلدل میں ہے اور ہچکولے کھاتی معیشت ہر وقت پکار رہی ہے کہ خدا کا نام لیں اور سدھر جائیں، کچھ کر لیں لیکن جنہوں نے کچھ کرنا ہے وہ ایسی تقریریں کر رہے ہیں کہ شاید تقاریر سے ہی مسائل حل ہو جائیں گے اور تقاریر ہی سے ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ بدقسمتی سے جتنے بھی مقرر ہیں وہ غیر ضروری باتوں میں قوم کو الجھائے ہوئے ہیں، کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرتے، کوئی تعمیری بات نہیں کرتے، ہر وقت یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، اس نے روک دیا، وہ ہمارا مخالف تھا، وہ نہ روکتا تو یہ کر دیتے، فلاں نے ہمیں سخت فیصلوں سے روکا۔ کیا کر رہے ہو بھائی، کیا دنیا ایسے ترقی کرتی ہے، کیا یہ تمہارا پلان ہے، کیا ایسے یہ ملک آگے بڑھے گا۔ عام آدمی کو کیا لگے کہ چیف سیکرٹری کون ہے، صوبے کا آئی جی کون ہے، کون سی سی پی او ہے، یا کون آئی جی اسلام آباد ہے، کون وزیر شذر ہے کون مشیر ہے، کون معاون ہے کون جھنڈے والی گاڑی پر گھوم رہا ہے۔ کہاں تبادلے ہو رہے ہیں، کیا تعیناتیاں ہو رہی ہیں، کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے، کون عہدہ چھوڑ رہا ہے کس نے آنا ہے۔ کیا یہ عام آدمی کے مسائل ہیں اور کیا یہ باتیں عوامی سطح پر ہونی چاہییں۔ عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس کا دل کرتا ہے صبح اٹھتا ہے اور بولنا شروع کر دیتا ہے۔ جس پر دل کرتا ہے الزام تراشیاں کرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، چلیں کوئی نہ پوچھے خود تو کسی کو خیال ہونا چاہیے یا نہیں۔ انہوں نے قوم کے مسائل حل کرنے ہیں ان سے تو اپنے مسائل حل نہیں ہو رہے، قوم کے مسائل حل کرنے کے نام پر قوم کو ایسا مسائل میں جکڑا ہے کہ کمر ٹوٹ گئی، بینائی جاتی رہی، جسم جواب دے گیا لیکن مسائل کم نہیں ہو سکے۔
ہر روز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لے کر تمام مسائل ان کے ذمے ڈالے جا رہے ہیں، دوسری طرف سے بتایا جا رہا ہے کہ اگر سمری رک جاتی تو ہمارے پاس پلان بی بھی موجود تھا۔ کچھ خدا کا خوف کریں کیا یہ باتیں عوامی سطح پر کرنے کی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آرمی چیف کی تعیناتی پر بات کر رہے ہیں، کیا اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ایک آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے چلے گئے ان کی جگہ ایک اور بہترین اور باصلاحیت افسر نے ذمہ داریاں سنبھال لیں با ختم ہو چکی پھر کیا ضرورت ہے کہ جو آیا ہے اسے بتاتے رہیں اور جو چلے گئے ہیں انہیں یاد دلاتے رہیں۔ کیا یہ گفتگو مفاد عامہ میں ہے لیکن سیاسی طور پر بڑی باتیں کرنے کے لیے جانے والے آرمی چیف یا آنے والے آرمی چیف بارے بات کرنا ضروری ہے۔ ملک کو بدترین مالی مسائل اور مالی مشکلات کا سامنا ہے کیا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے باقی سارے کام مکمل کر لیے ہیں جو ہر وقت ٹیلیویژن پر نظر آ رہے ہیں۔ اگر ملک کے مالی مسائل حل ہو چکے ہیں تو وزیر خزانہ ضرور ٹیلی ویژن پر آئیں، معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گفتگو کریں لیکن جب ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں تو پھر وزیر خزانہ کو ایسی باتوں کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے نئے آرمی چیف کے حوالے سے کسی کو بھی غیر ضروری طور پر گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان یہ سمجھ جائیں کہ لوگوں کے لیے ایسے موضوعات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری بات ایسی گفتگو ہر کسی کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ بند کمروں میں کرنے والی باتیں ہیں۔ کچھ سنجیدگی اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ الفاظ کی قدر کریں ان کی اہمیت کا احساس کریں۔ اصل کام پر توجہ دیں۔ معیشت کی بہتری پر وقت لگائیں، ادھر اْدھر کی باتوں کو چھوڑیں، جتنا بولیں گے اتنے مسائل پیدا ہوں گے اور آپ کے پاس کوئی حل نہیں ہو گا۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ "بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کرنسی مارکیٹ میں مداخلت نہیں کر رہے، اسمگلرز اور ہنڈی مافیا نے ملکی معیشت کو یرغمال بنایا ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی حکومت کو مارکیٹ میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔نیب کے ڈر سے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔غریب اور نادار لوگوں کو سبسڈی دینا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے ملک میں سبسڈی ٹارگیٹڈ ہونی چاہیے، ہم سوشل سکیورٹی کے لیے جتنا خرچ کر سکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے، ہمیں ایکسپورٹس بڑھانا ہوں گی کیونکہ ہم بیرونی قرضوں پر مزید انحصار نہیں کر سکتے۔" وزیر خزانہ آگے بڑھیں اور کام کریں۔ انہیں کیا کرنا چاہیے اب یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ اب وہ اقتدرا میں ہیں جو ہو چکا وہ لوگوں کو بتاتے ہوئے وقت ضائع کرنے کے بجائے جو کرنا چاہتے ہیں اس پر وقت صرف کریں۔ قوم کی درست سمت رہنمائی کریں۔ فیصلے کریں، عملدرآمد کریں، معیشت بہتر بنانے کے لیے وقت ضائع کیے بغیر سخت فیصلے کریں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی چاہیے کہ ملک کی کمزور معیشت اور اپنی باری لینے کے بعد اب حوصلہ کریں۔ انہیں انتخابات کی ضرورت ہے تو کیا انتخابات اچانک ہو جائیں گے۔ کیا ان پر کوئی خرچ نہیں اٹھے گیا اور حکومت آپ کے مطالبے پر الیکشن کیوں کروا دے۔ اگر آپکو کمزور معیشت کی فکر ہے تو پھر اس کے لیے قربانی بھی دیں۔ آپ ہر روز سابق آرمی چیف پر تنقید کرتے ہیں۔ اب ان باتوں کا کیا فائدہ ہے۔ اگر آپ اتنے بڑے اور کامیاب منتظم تھے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے تو ساڑھے تین سال تک خاموش کیوں بیٹھے رہے، اب وہ عہدے پر نہیں رہے تو آپ کو گذری ہوئی ساری باتیں یاد آ رہی ہے۔ ان باتوں کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ آپ نے خود انہیں سب سے بہتر اور جمہوری آرمی چیف قرار دیا اب آپ ہر وقت اپنی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرا رہے ہیں اگر سب کچھ وہ کرتے تھے تو آپکا کیا کردار تھا۔ آپ تو اپنے ووٹرز کو بتاتے ہیں کہ کبھی دباؤ میں آئے، عمران خان کسی سے ڈرتا نہیں اب آپ بتا رہے ہیں کہ عمران خان تو کچھ کرتا ہی نہیں تھا۔ اب بھی وقت ہے اصلاح کریں آگے بڑھیں جو ہو چکا ہے اس پر گفتگو کرنے اور بیانات جاری کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ آگے بڑھیں قوم کی درست سمت رہنمائی کریں۔