لاہور (این این آئی‘ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے۔ جبکہ وزیراعلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ جب عمران خان مجھے ساتھ بٹھا کر جنرل باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے بہت برا لگا۔ جنرل باجوہ کے خلاف اب اگر بات کی گئی تو سب سے پہلے میں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی۔ جنرل باجوہ کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں۔ احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل باجوہ ہمارے بھی محسن ہیں، محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ عمران خان کے خطاب سے پہلے کہا تھا بتائیں ہمیں کیا دیں گے۔ اسد عمر، پرویز خٹک اور سبطین خان پر مشتمل کمیٹی بنائیں۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے مخالف نہیں بلکہ ساتھی ہیں‘ لیکن اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ عمران خان تو مونس الٰہی کو ساتھ نہیں بٹھاتے تھے، اس کے باوجود ہم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب عمران خان نے کہا کہ اسمبلی توڑ دو تو ہم نے فوری حامی بھر لی۔ جنرل باجوہ ہمارے محسن ہیں اور محسنوں کیخلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بھی محسن ہیں، جب جنرل باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے برا لگا۔ جنرل باجوہ کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں، جنرل قمر باجوہ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچایا، بیرون ملک سے فنڈز لانے خود گئے، سعودی عرب، قطر اور آئی ایم ایف سے پیسے سابق آرمی چیف لے کر آئے، انہوں نے ہی آئی ایم ایف سے بیلجیئم میں بیٹھ کر بات کی تھی۔ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ جنرل فیض ہمارے خلاف تھے اور انہوں نے بہت زیادتیاں کیں، ہم نے جنرل قمر باجوہ کو بتایا تو جنرل فیض حمید نے کہا کہ عمران خان کا حکم ہے۔ میں نے اور مونس الٰہی نے ہفتہ کے دن بھی ملاقات میں کہا کہ جنرل قمر باجوہ کے خلاف نہ بولیں، اس کے باوجود عمران خان نے مجھے ساتھ بٹھا کر باجوہ صاحب کے خلاف بات کرکے زیادتی کی ہے۔ جنرل باجوہ کے خلاف اب بات کی گئی تو سب سے پہلے میں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی، پی ٹی آئی احسانات یاد رکھے احسان فراموش نہ بنیں، یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں، یہ لوگ کیا اوپر سے آئے ہیں، کیا کوئی انسان اتنا احسان فراموش ہوسکتا ہے۔ نوازشریف کے پلیٹ لیٹس پورے ہو گئے ہیں۔ شہبازشریف کے بیٹے آگئے۔نوازشریف بھی نہا دھو کے آجائیں گے۔ پی ٹی آئی فارغ ہو جائے گی۔ (ن) لیگ آجائے گی۔ اس لئے بھائیوں والا مشورہ دے رہا ہوں‘ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے مخالف نہیں‘ ساتھی ہیں۔ عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ اچانک نہیں دی۔ کئی بار تفصیلی مشاورت کی گئی۔ (ن) لیگ والے شرارتیں کرتے ہیں‘ ان کے کچھ ٹارگٹ ہیں۔ اگر مجھے موقع ملتا تو اگست تک مدت پوری کرتے۔ یہ مینڈیٹ عمران خان کا ہے۔ اسی کے فیصلے پر عمل کریں گے۔ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔ اپنی اوقات میں رہیں‘ جنرل باجوہ کے خلاف بات نہ کریں۔ ہم کامل علی آغا کو بٹھا دیں تو ان کے خلاف پورا دن بولے گا۔ عثمان بزدار احسان فراموش ہے۔ آدھا کام تو اس نے خراب کیا۔ اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کرکے عمران خان کو دے آیا ہوں۔ ننانوے فیصد لوگ چاہتے تھے اسمبلیاں نہ ٹوٹیں۔ میں نے کہا 12 دن بعد اسمبلی توڑیں۔ انہوں نے کہا کہ چھ دن بعد توڑیں گے۔ میں نے کہا سامان سمیٹنے دیں۔ کچھ دن دیدیں۔ شہبازشریف سمجھتے ہیں‘ وزارت عظمیٰ کا یہ ان کا آخری چانس ہے۔ بقول فواد چودھری ہمیں اوقات میں رکھا ہے۔ اس طرح کی حرکتیں دکھ دینے والی ہوتی ہیں۔ اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ کنٹرول کرنا چاہئے۔ یہ ہمارے خلاف باتیں کریں گے تو ان کے خلاف دس بندے لگا دوں گا۔ ہمارا اسٹیلبشمنٹ سے کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا۔ ہم سیاستدانوں سے اسٹیبلشمنٹ زیادہ سمجھدار ہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ جنرل فیض نے چیئرمین نیب سے کہا تھا کہ مجھے اور مونس الٰہی کو گرفتار کر لو۔ ہم کچھ چیزیں ان کی سہہ بھی لیتے ہیں۔ ہم محبت میں باتیں ٹال بھی دیتے ہیں۔ معاملے صحیح ہو جاتے ہیں۔ اسمبلیاں توڑنے سے پہلے عمران خان کو نقصان کا بھی بتایا۔ ایک ایک چیز بتائی۔ کچھ نہیں چھپایا‘ لیکن عمران خان نے پھر بھی تحلیل کی تاریخ دیدی۔ موٹرویز بنانے کا کریڈٹ نوازشریف کو جاتا ہے۔ اسحاق ڈار نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ کیا توشہ خانہ‘ توشہ خانہ لگا رکھا ہے۔ یہ بھی کوئی چیز ہے ۔ صدر علوی سیانے آدمی ہیں۔ کیا پی ٹی آئی والے اوتار ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں باہر سے فنڈز لانے ہوتے تھے تو قمر جاوید باجوہ خود جاتے تھے۔ کیا کوئی اتنا احسان فراموش ہو سکتا ہے۔وزیراعلیٰ رہا تو نواز شریف کو پنجاب کی ساری جیلوں کی سیر کرا¶ں گا۔ ہمیں اب فوج اور عدلیہ کے بارے میں کم سے کم بات کرنی چاہئے۔ پرسوں چودھری شجاعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی۔ چودھری شجاعت نے کہا تمہارے حق میں بیان دوں گا۔ میرے حق میں بیان ابھی تک نہیں آیا۔ الیکشن کمشنر تو الیکشن کرانے کو تیار نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اپنے کام کے علاوہ ہر چیز کرتے ہیں۔ ان کا جو بس چل رہا ہے وہ کر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس کی کوئی اہمیت نہیں۔ عدالتیں اور دیگر ادارے نیوٹرل ہیں۔ باجوہ صاحب کو کہا تھا نواز شریف‘ شہباز شریف سے زیادہ بہتر ہے۔ مخالفین کو بھی کریڈٹ دینا چاہئے۔ عارف علوی جو باتیں کرتے ہیں پاکستان کے مستقبل کیلئے ضروری ہیں۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بات کرنا قبل ازوقت ہو گا۔ عدلیہ اور فوج ایسے ادارے ہیں جو چاہتے ہیں ملک آگے جائے۔ پی پی‘ ن لیگ کی اگلی نسل میں ایسا کوئی نہیں جو سیاست سنبھال سکے۔ بے نظیر بھٹو نے میرے ساتھ زیادتی کی۔ آصف زرداری بڑے کھلے دل کے آدمی ہیں۔ شہباز شریف میں ایسا کچھ نہیں‘ نواز اور مریم سیاسی معاملہ فہم ہیں۔ دونوں میں سیاست میں آگے دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہ نظام چلتا رہے۔ اسمبلیاں مدت پوری کریں۔ حکومت اکنامک ایمرجنسی لگانے کا آپشن رکھتے ہیں لیکن یہ دور کی بات ہے۔ باجوہ صاحب کو شکایت کی جس پر جنرل (ر) فیض کی اچھی ٹھکائی کی۔ ہم نے پی ٹی آئی کو سینٹ کی سیٹیں لے کر دیں پھر وہ سیدھے ہوئے اور مونس کو وزیر بنایا۔ عمران خان کو جنرل (ر) فیض کے ذریعے کسی کو اندر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ حسنین بہادر دریشک نے کابینہ میں بک بک شروع کر دی تو اسے گیٹ آ¶ٹ کہا۔ صرف آفر ہے، شریف اور میں ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس شریفوں یا زرداری کی طرف سے بوریاں نہیں آتیں۔ یہ کیا کہ منہ اٹھا کر باجوہ کیخلاف بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان کے ارد گرد لوگ میرے مخالفین تھے۔
پرویز الٰہی