ہماری شہ رگ اور بارہ سو اکتیسواں دن


سقوطِ ڈھاکہ میں مسلمانوںکے ازلی دشمن بھارت کے کردار کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہر بر س لکھا جاتا ہے تاکہ یہ سب ہمیں بھی یاد رہے اور ہمارے آنے والی نسل بھی تاریخ کے اس باب کو کبھی نہ بھولے۔ لیکن کیا یہ صرف تاریخ ہے؟ کیا زمانۂ حال کی ایک بڑی سچائی یہ نہیں کہ بھارت کو آج بھی پاکستان کا وجود گوارا نہیں ؟ بلکہ بھارت کی موجودہ حکومت تو پچھلی تمام بھارتی حکومتوں سے زیادہ پاکستان اور اسلام کی دشمن ہے۔ لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ سبق سیکھا ہے؟ اپنی غلطیاں درست کیں یا پھر ہم اپنا ماضی اور اپنے حال کے تلخ حقائق بھولتے جا رہے ہیں؟ اگر کوئی قوم اپنے ماضی اور اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتی تو یہ بذاتِ خود ایک بڑا سانحہ ہوتا ہے۔
پاک بھارت تعلقات کا ذکر کشمیر کے ذکر کے بغیر غیر حقیقت پسندانہ ہو گا۔ لیکن کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم کشمیر کو عملی طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ ہماری درسی کتب سے اس کا ذکر مٹتا جا رہا ہے۔ نئی نسل کو کشمیر کیا پاکستان کا بھی کچھ پتا نہیں ۔ پرنٹ میڈیا کی جگہ عملی طور پر الیکٹرانک میڈیا لے چکا ہے جو ا پنی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے مکمل طور پر ’کمرشل عفریت‘ بن چکا ہے۔ کچھ ایک ادارے اور صحافی موجود ہیں جو ابھی بھی کشمیر کو یاد کرتے اور کرواتے رہتے ہیں چاہے اس کے بدلے میں ہمارے ’ لبرل‘ دوست انھیں دقیانوسی تو کبھی انتہا پسند کہتے ہیں ۔ ان محبانِ وطن میں سے ایک ’نوائے وقت‘ بھی ہے جو کشمیر پر ہونے والے ہر ظلم کا ہر لمحہ عملی طور پر دن گن گن کر گزارتا ہے ا ور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوجی محاصرے کو کتنے دن ہو چکے ہیں، یہ ادارہ قریب قریب ہر روز اپنے فرنٹ پیج پر شائع کرتا ہے۔ آج اس بھارتی ظلم اور محاصرے کو بارہ سو اکتیسواں دن ہے۔ بھارت کے آرٹیکل 370 سے متعلقہ اقدامات اور ان سے منسلک فوجی آپریشن کو تو 1231 دن ہی ہوئے ہیں لیکن جموں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی غلامی کی داستان کی کہانی اصل میںتقریباً پونے دو سو برس پرانی ہے۔
 ریاست جموں و کشمیر 16 مارچ 1846کو وجود میں آئی جب آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والے تاج برطانیہ ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) نے کشمیر اور اس میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو 75 لاکھ روپے میں راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا ۔ یہ بلا شبہ دنیا کی تاریخ میں انسانوں کو غلام بنا کر فروخت کرنے کی سب سے بڑی ’ڈیل‘ تھی۔ مسلمان آبادی نے اس غیر قانونی ’فروخت‘ کے خلاف پہلے دن سے احتجاج شروع کر دیا۔ 1931ء میں کشمیری مسلمانوں نے غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پہلی بار اجتماعی تحریک چلائی۔ اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے انسانی حقوق کی اس عظیم تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید ہو گئے۔ گلینسی کمیشن کی رپوٹ ( شائع شدہ اپریل 1932ئ) میں تسلیم کیا گیا کہ جموں کشمیر میں مسلمانوں پر بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے اور ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
1932ء میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس نے ’ جموں کشمیر مسلم کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی۔ 1939ء میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کا نام ’ نیشنل کانفرنس‘ رکھا دیا۔ 1941ء میں چودھری غلام عباس نے مسلم کانفرنس دوبارہ بحال کی اور پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ جولائی 1946ء میں مہاراجہ نے وعدہ کیا کہ کشمیر کے لوگ ( مسلمان) اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ جنوری 1947ء میں ہونے والے الیکشن میں مسلم کانفرنس نے 21 میں سے 19 نشستیں جیت لیں اور اس طرح کشمیر کی آبادی کی اکثریت نے اپنے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا۔ 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے کنونشن میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا۔ مسلم اکثریت اور مندرجہ بالا قرارداد کے باوجود کشمیر کے غیر مسلم راجہ نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کیا۔
راجہ کی مکاریوں سے تنگ آ کر کشمیری عوام نے 23 اگست 1947ء کو سردار عبدالقیوم کی سربراہی میں آزادی کشمیر کی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ 30 ستمبر 1947ء کو نہرو نے کہا کہ کشمیر اور دیگر ریاستوں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ ریفرنڈم سے کرنے کا حق دیا جانا چاہیے لیکن ایک جھوٹا وعدہ اور ڈھکوسلا تھا اور 26 اکتوبر 1947ء کی رات مہاراجہ کشمیر نے کشمیری عوام کی امنگوں کے خلاف بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا اور بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی۔ 27 اکتوبر کو قائد اعظم محمد علی جناح نے جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ پاکستانی افواج کشمیر میں داخل ہو کر بھارتی فوج کا مقابلہ کریں لیکن جنرل گریسی نے اپنے گورنر جنرل کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ 31 دسمبر کو بھارت خود کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے گیا۔ اقوامِ متحدہ میں قراردادیں (نمبر 38,39,47) منظور کی گئیں جن میں کہا گیا کہ کشمیر ی عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ بھارت نے ایک بار پھر عالمی برادری سے ایسا کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن ہمیشہ کی طرح مکر گیا۔
1965ء آپریشن جبرالٹر، 1966ء معاہدہ تاشقند اور 1972ء میں شملہ معاہدہ جس میں ایک بار بھر کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کا مسئلہ عوام کی امنگوں کے مطابق حل کریں گے۔ لیکن یہ وعدہ پورا کرنے کی بجائے فروری 1975ء میں شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایک ’سیاہ‘ معاہدہ کر کے وزیر اعلیٰ کشمیر کا عہدہ قبول کر لیا اور کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کر کے ذاتی مفاد اور عہدے کے لیے لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں اور آزادی کا سودا کر لیا۔ 1987-90ء کے دوران کشمیریوں نے اپنے خون سے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونکی۔ جون 2010ء میں طفیل احمد کی شہادت ہو یا جولائی 2016ء برہان وانی کی شہادت، سینکڑوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا سے پوچھ رہے ہیں کہ تمام دنیا کے ہر انسان کو آزاد رہنے کا حق ہے لیکن کشمیر یوں کو آزادی کب ملے گی؟
 آزاد ذرائع ( بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل )کے مطابق، بھارت کی چھ لاکھ کے قریب فوج کشمیر میں ہے جو کشمیری مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم، جسمانی تشدد، ماروائے عدالت قتل اور خواتین کی عزتیں پامال کرنے جیسے جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ سٹیٹ ہیومن رایٹس کمیشن کی ایک رپورٹ میں 2011ء میں انکشاف کیا کہ جموں کشمیر میں ایسی بے شمار اجتماعی قبریں ملی ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے کشمیری اجسام تھے جن پر تشدد اور گولیاں لگنے کے نشانات اور ثبوت موجود ہیں۔ مغربی طاقتوں اور عالمی دنیا کا بھارت سے منسلک اپنے معاشی اور سیاسی مفادات اور اسلام دشمنی کی بنا پر ان تمام بھارتی مظالم کی جانب آنکھیں بند کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ، ہم کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کیا اب ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی اور زبانی حمایت کے قابل بھی نہیں رہے؟ ہم نے تو بچپن سے پڑھا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے!

ای پیپر دی نیشن