سقوطِ ڈھاکہ: ایک عالمی سازش


یہ بڑی سادہ سی بات ہوگی کہ1970ء کے انتخابی مینڈیٹ پر عمل نہ کر نے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا  اور یہ بات اس سے بھی زیادہ سادہ پن کا مظہر ہوگی کہ مغربی پاکستان والے مشرقی پاکستان کے عوام سے نفرت کرتے تھے ۔اس سے زیادہ سادہ بات یہ ہوگی کہ پاکستان دفاع کے لحاظ سے اس قدر کمزور ملک تھا کہ اسے بھارت کے سامنے سرنڈر پر مجبور ہونا پڑا ۔یہ ساری باتیں سقوطِ ڈھاکہ کے ذیلی اسباب میں فیشن کے طور پر کہی جاتی ہیں مگر اصل سبب یہ ہے کہ اس سانحے کے پیچھے ایک عالمی سازش کار فرما تھی ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ ایک ایسے دفاعی معاہدے سے منسلک تھا جس کی رو سے امریکا کے لیے لازم تھا کہ پاکستان پر روس کی براہِ راست جارحیت یا روسی کیمپ کے کسی ملک کی طرف سے حملے کی صورت میں امریکی افواج پاکستان کی مدد کو آئیں گی ۔
 یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اعلان توہوا کہ امریکی بحری بیڑا مشرقی پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے مگر 1971ء کی 16 روزہ جنگ میں امریکا کا یہ بحری بیڑا آبنائے ملاکا میں پھنس کر رہ گیا اور بھارت نے کمیونسٹ بلاک کے ساتھ مل کر جو سازش تیار کی تھی، اسے پروان چڑھایا گیا۔ بھارت نے یہ سازش کھلے عام کی۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1970ء اور71ء میں پوری دنیا گھوم ڈالی تھی اور پاکستان کے خلاف ایک مضبوط منفی پروپیگنڈا منظم سازش کے تحت کیا گیا۔ دنیا بھر میں یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ مغربی پاکستان اپنے مشرقی صوبے کی پٹ سن کی کمائی کو ہڑپ رہا ہے اور مشرقی صوبہ غربت اور پسماندگی میں پسا ہوا ہے جبکہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور کی رونقوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ بات بھی ایک سفید جھوٹ تھی کہ بنگالی عوام پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ۔
تاریخی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ہی بنگالی مسلم قیادت نے رکھی تھی۔ 1940ء میں لاہور میں جو قراردادِ پاکستان منظور کی گئی، اسے مشرقی پاکستان کے ایک لیڈر مولوی فضل الحق نے پیش کیا تھا ۔شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ وہ دہلی میں مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کے لیے ڈھاکہ سے سائیکل پر جایا کرتا تھا ۔اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے نفرت کا پروپیگنڈا کسی سفید جھوٹ سے کم نہیں تھا۔ جن دانشوروں نے 70ء اور71ء  میں مشرقی پاکستان کا سفر کیا، انھوں نے اپنے تجزیوں میں لکھا کہ مشرقی پاکستان میں پاکستان اورقائداعظم ؒ سے محبت کے زمزمے بہہ رہے ہیں۔ اس محبت کو نفرت میں بدلنے کے لیے بھارتی اور عالمی میڈیا نے وسیع پیمانے پر زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایسٹ بنگال رجمنٹ نے کھیم کرن کی فتح میں قابلِ قدر اور نمایاں کردار ادا کیا جس پر شاعر کو کہنا پڑا، ’مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘۔ ایم ایم عالم نے 65ء کی جنگ میں بھارتی فضائیہ پرخچے اڑائے اور ایک منٹ میں پانچ بھارتی جنگی طیاروں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا ۔اس نامور ہوا باز کا تعلق بھی اسی مشرقی صوبے سے تھااور پاکستان کی دفاعی تاریخ میں ایم ایم عالم کانام سنہری حروف میں لکھا جا تا ہے۔
اس منظر نامے کو الٹنے کے لیے سفید جھوٹ اس قدراندھادھند پھیلایا گیا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ مشرقی پاکستان میں میر جعفر اور میر صادق تلاش کیے گئے اور ان کے ذریعے بھارت نے اس قدر سرمایہ خرچ کیا کہ سیدھے سادے بنگالی عوام کو پاکستانی فوج کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کلکتہ کے کیمپوں میں مکتی باہنی کے تربیتی کیمپ قائم کیے گئے، جہاں بھارتی فوج نے ان کی برین واشنگ کی اور انھیں پاکستانی فوج کے خلاف مرنے مارنے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس کے باوجود انھی مقامی بنگالی نوجوانوں پر مشتمل تنظیموں البدراور الشمس نے بھارت نواز مکتی باہنی کا ڈٹ کر مقابلہ کیااورپاک فوج کی بھرپور سپورٹ کی۔میں یہ بات تواتر سے کہہ رہا ہوں کہ مشرقی اور مغربی صوبے کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا، بھارت نے اس دوری کا فائدہ اٹھاکر بنگالی عوام کو خوب بھڑکایا لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی پاکستان سے کئی گنابڑے پورے مشرقی پاکستان کی آبادی میں پاکستان کے صرف دو ڈویژن بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیے ملکی دفاع پر مامور تھے اور ان میں لڑاکا فوجیوں کی تعداد صرف 37 ہزار تھی۔ جنرل ٹکا خان کی قیادت میں مکتی باہنی کی بغاوت کو کچلنے کے لیے ایک فوجی آپریشن کیا گیا جس نے بڑی سرعت اورتیز رفتاری سے کارروائیاں کیں اور’باغی عناصر‘ کو ناکام بنا دیا ۔اسی فوجی آپریشن کے بعد مشرقی پاکستان میں ضمنی الیکشن کروائے گئے جن میں جماعت اسلامی نے بھاری اکثریت حاصل کی اور اس کے وزراء پر مشتمل ایک منتخب جمہوری حکومت بھی خوش اسلوبی سے کام کرنے لگی ۔
بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کا ساتھ دینے والے عالمی سازشی عناصر ہر صورت میں پاکستان کو دولخت کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔اس لیے وہ چین سے نہ بیٹھے اور بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پرفوجی یلغارکرتے ہوئے عملی بیرونی جارحیت کا آغاز کر دیا ۔پاکستان کی گنتی کی فوج نے ایک بار پھر شجاعت اسلامی کی بھرپور داستانیں رقم کیں اور بھارتی افواج کو مشرقی سرحد پر کہیں سے بھی ایک انچ آگے بڑھنے نہیں دیا گیا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ وہ مشرقی صوبے کا بڑا حصہ آزاد کرا کر وہاں بنگلہ دیش کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دے لیکن پاکستان کی بہادرجری افواج نے ان کی ہر سازش ناکام بنا دی۔ 16 دسمبر 1971ء کو اچانک بھارتی فوج کے ہیلی کاپٹر ڈھاکہ میں اترے جنھوں نے جنرل نیازی کو سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس سرنڈر کو کسی صورت میں بھی فوجی شکست نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو جنگی و ابلاغی پروپیگنڈے کی ایک یلغار تھی اور عالمی سازشوں کی وجہ سے پاکستان کو تن تنہا اور بے بس کر دیا گیا۔ پاکستان نے سقوطِ ڈھاکہ سے ایک سبق حاصل کیا اور بہت کم عرصے میں ایٹمی قوت بن کر اپنی سلامتی کو یقینی بنا لیا۔ آج پاکستان کے دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے اور وہ ہماری صفو ں میں انتشار نہیں پھیلا سکتے۔ وہ جھوٹے،مکروہ اور مذموم پروپیگنڈے کی ہرکوشش کے باوجود سوشل میڈیا کے میدان میں ففتھ جنریشن وار نہیں جیت سکتے۔

ای پیپر دی نیشن