16دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر اخبارات میں اس موضوع پر کالموں کی بھرمار تھی لیکن کسی نے بھی سقوطِ ڈھاکہ کے سب سے اہم پہلو جاگیرداری کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ ’جاگیرداری ٹھاہ ‘ کا نعرہ ہماری سیاست سے خارج ہو چکا ہے۔ بھٹو پارٹی سمیت کوئی سیاسی جماعت اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کو جب کبھی جیالا بننے کا شوق چراتا ہے تو وہ جاگیرداری ٹھاہ کانعرہ لگا لیتے ہیں۔ لیکن مزے کی بات ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں جاگیرداری کے خلاف عابد منٹو کی رٹ میں عابد منٹو کے ساتھ کھڑا ہونے کوتیار نہیں۔ شاید ایسا کرنے میں اس دیندار شخص کو یوں محسوس ہوتا ہو جیسے وہ دینداروں کی دائیں جانب سے ہٹ کر بائیں جانب بے دینوں کی صف میں جاکھڑے ہوئے ہوں۔
نوابزادہ نصرا للہ خان ایک مشاعرے میں اپنا کلام سنا رہے تھے۔ ضمیر جعفری کہنے لگے، نوابزادہ صاحب ! آپ تو ہمارے قبیلے کے آدمی ہیں۔ ادھر آئیے۔ آپ کو سیاست سے کیا لینا دینا؟ نوابزادہ جھٹ بولے، ہم لوگ سیاست میں کچھ لینے نہیں دینے آتے ہیں۔ لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ایک جاگیردارکی ساری سوچ اور سیاست جاگیر سے شروع ہو کر جاگیر پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جب جاگیروں پر زِک پڑنے لگی تو انجمن تحفظ حقوق کاشتکاراں تحت شریعت کے صدر کے عہدے پر یہی صاحب دکھائی دیے۔ ضرورت نے جاگیردار کو کاشتکار بنا ڈالا۔ لیاقت علی خاں کرنال کے ایک بڑے جاگیردار تھے ۔ شاید اسی لیے تحریک آزادی کے آخری دنوں میں قائد اعظم اور ان کے تعلقات میں اختلافات پیدا ہو گئے ۔ کے کے عزیز نے اپنی کتاب 'Murder of History' میں اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ انگریزوں اور کانگریس سے بڑی نازک گفت و شنید کے ان مراحل میں قائد اعظم مسلم لیگ میں اندرونی اختلافات کا تأثر دینا نہیں چاہتے تھے ۔ اسی لیے وہ خاموشی سے لیاقت علی خاں کو برداشت کرتے رہے ۔ ان کشیدہ تعلقات کے بارے میں آپ مزید محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب 'My Brother' میں پڑھ سکتے ہیں۔
مسلم لیگی حسرت موہانی پاکستان بنا تو بہت خوش ہوئے لیکن اقتدار سے بے نیاز یہ درویش ہندوستانی مسلمانوں کی آواز کو تقویت دینے کے لیے وہیں ٹک رہے اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں گرجتے برستے پائے گئے۔ صر ف ایک مرتبہ پاکستان آئے اور گورنر جنرل قائد اعظمؒ کے ہاں ٹھہرے۔ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد قرار دادِ مقاصد منظو رہونے پر ان کا تأسف بھرا تبصرہ یوں تھا، اسے مسعود مفتی نے اپنی کتاب ’دو مینار‘میں نقل کیا ہے: ’اللہ کی حاکمیت کا تصور خارجیوں کا نعرہ ہے ۔ خارجی قبائلی لوگ تھے اور کوئی خود کار ریاستی ڈھانچہ قائم نہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ اپنی سرداریاں قائم رکھنے کے لیے اللہ کی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے ۔ اب آج کے زمانے میں جب اس ارفع نظریے کو ریاستی ڈھانچے کا رہنما اصول بناتے ہیں تو بے ایمانی کرتے ہیں کیونکہ یہ ارفع نظریہ زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے ۔ اسے کسی ریاسی آئین کی بنیاد نہیں بنا یا جا سکتا۔ آئین زمان و مکاں کا پابند ہوتا ہے اور تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ محمد علی جناح ؒ زندہ ہوتے تو اس کی نوبت کبھی نہ آتی۔ لیاقت علی خاں زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے عوام کے حق میں حاکمیت تسلیم کرتے تو پھر وہ استحصالی طبقوں کو بچا نہیں سکتے تھے اور اب مولوی ان کو مذہبی جواز پیش کر دیں گے۔‘
تمام نوابزادوں ، جاگیرداروں اور مولویوں کی طرح لیاقت علی خاں بھی ویسا جمہوری اور عوام دوست پاکستان نہیں چاہتے تھے جیسا کہ قائد اعظم کی 13ماہ کی تقاریر سے ظاہر ہو رہا تھا۔ مغربی پاکستان کے نمایاں اور بڑے زمیندار خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کا شجرہ نسب 1857ء سے پہلے کے زمانہ تک جاتا ہو۔ مغل ادوار میں موروثی جاگیروں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جاگیر کے نسل درنسل ملکیت منتقل ہونے کا تصور خالصتاً انگریزوں کی دین ہے ۔ یہ 1857ء کی وطن دشمنی کا اجر ہے ۔ 1945ء تک ان کی اکثریت کانگریسی پارٹی میں شامل رہی لیکن جب کانگریس نے فیصلہ کیا کہ وہ آزادی کے فوراً بعد جاگیرداری نظام ختم کر دے گی تو انھوں نے مسلم لیگ کی طرف رجوع کرلیا۔ قائد اعظم ؒ کی سیاسی فراست نے انھیں اس لیے خوش آمدید کہا کہ1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ثابت کر کے پاکستان کی جنگ جیتنے کے لیے انھیں عددی اکثریت کی اشد ضرورت تھی۔ انھوں نے یہ جنگ جیت لی لیکن موت نے انھیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ ان سب کی صحیح خطوط پر سیاسی تربیت کر سکیں۔
ادھر، 1959ء کی ایوب خانی زرعی اصلاحات کے بعد بھٹو نے 1972ء اور 73ء میں مزید زرعی اصلاحات نافذ ضرور کیں لیکن ان تمام زرعی اصلاحات کے باوجود پاکستان میں جاگیرداری نظام ختم ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتا چلا گیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر تمام زرعی اصلاحات پر خط تنسیخ پھیر دی۔ آج تک کوئی حکمران زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی جرأت بھی نہیں کر سکا۔ یہ جاگیردار حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو حکومت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ حکومت کے اندر ہوتے ہیں تو آئین اور قانون کی بندش سے باہر ہوتے ہیں۔ جاگیرداری سب کو اپنا محتاج اور تابع دیکھنا چاہتی ہے۔ جاگیردارانہ ذہنیت میں مخالف رائے کا کوئی احترام نہیں۔ جاگیردار اپنے مزارعین سے غیر مشروط وفاداری چاہتا ہے اور اسی طرح ایک جاگیردار سیاستدان اپنے کارکنوں سے بھی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ایک جاگیر کی طرز پر ہی چلائی جاتی ہیں۔
ہندوستان نے اپنے پروگرام کے مطابق آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد جاگیرداری سے نجات حاصل کرلی۔ یورپ کی جاگیرداری سے جان طاعون نے چھڑوا دی ۔ اس غیر مشینی دور میں زراعت کا ساراانحصار غلاموں پر تھا۔ ہر جاگیر کی ملکیت میں غلاموں کی ایک تعداد بھی شامل ہوتی تھی۔ 1346ء میں طاعون کی وبا کے باعث یورپ کی آبادی آدھی رہ گئی۔ غلام جاگیریں چھوڑ کر شہروں کی طرف بھاگ نکلے۔ جاگیرداری ختم ہوگئی ۔ بنگلہ دیش میں جاگیریں برائے نام تھیں۔ سیاسی جماعتوں پر کارکنوں کا غلبہ تھا۔ سو مشرقی پاکستان مسلم لیگ کو جاگیرداری کے خلاف قرارداد منظور کرنے میں کوئی مشکل نہ تھی۔ جاگیرداری کے خلاف قراردادکی منظوری نے مغربی پاکستان کے جاگیرداروں کے حلقے میں بھونچال پیدا کر دیا۔ یہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی برس تھے ۔ انھوں نے اسی روز سے علیحدگی کے بارے سوچنا شروع کر دیا تھااور انھیں علیحدہ کر کے ہی دم لیا۔ اہلِ خبر جاگیرداری کے خلاف اس قرارداد کو بنگلہ دیش کی قیام کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔