جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں


یہ 1983 کی بات ہے جب میری نعت خوانی کی مقبولیت گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال کی حدوں سے نکل کر شہر بھر میں پھیل گئی یہ وہ دور تھا جب شہر میں ہونے والی ہر بڑی سرکاری، سماجی، علمی، ادبی اور دینی نوعیت کی تقریب کی ابتدا میں تلاوت کلام پاک کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت ہمارے حصے میں آتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ساہیوال میں ہونے والی علمی ، ادبی ، سماجی اور ثقافتی تقریبات میں قسور مبارک بٹ کے نام کی منفرد شناخت رکھنے والی ایک دلفریب شخصیت مجھے نمایاں انداز میں بھاگ دوڑکرتی نظر آتی رہی.... اسٹیج پر اس کی گفتگومیں ایک خاص قسم کی نفاست اور تہذیبی رکھ رکھاو¿ جھلکتا۔وہ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاریوں میں رہنے والے باکمال انسان تھے۔ چند ماہ قبل میں ا±ن سے ملاقات کیلئے ا±نکی اقامت گاہ محلہ عید گاہ پہنچا مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے دوگھنٹے سے زائد دورانیے پر محیط اس نشست کے دوران کہنے لگے۔یار! نعتِ پاک ہی س±نا دو میں نے ا±نکے حکم کی تعمیل کی نعت ختم ہونے پر کہنے لگے ایک اور س±نا دو میں نے دوسری نعت بھی سنا دی اس دوران وہ مسلسل آبدیدہ رہنے کے بعد جیسے ہچکیاں لے لیکر با آواز بلند رونے لگے اور دوسری نعت مکمل ہونے پر پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے یار علی رضا اگر ہو سکے تو ایک نعت اورعطا کر دو ا±س روز ا±ن پر طاری کیفیت بھی عمر بھر میرے دل دماغ پر نقش رہے گی۔
ا±نھوں نے "ساہیوال اکیڈمی" کے تحت اپنی انتظامی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کئی موقعوں پر مختلف نوعیت کی لاتعداد یادگار اور شاندار تقریبات کا انعقاد بھی کروایا۔ ساہیوال اکیڈمی" کے پلیٹ فارم سے ہونیوالی ان تقریبات کی یادیں آج بھی نہ صرف میرے حافظے میں محفوظ ہیں بلکہ مجھے خوشگوار ماحول فراہم کئے ہوئے ہیں۔قسور بٹ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے زمانہ طالبعلمی کے دوران طلبہ سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد ازاں وہ شہر میں ہونے والی علمی ، ادبی اور دیگر تقریبات میں ایک خاص شناخت کے ساتھ نمو دار ہو۔ قسور بٹ نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر شعر و ادب کی ترویج و اشاعت کیلئے خصوصاً پنجاب لوک لہر کے پلیٹ فارم سے پنجابی زبان و ادب کی ترقی اور فروغ کےلئے بھر پور کردار ادا کیا۔ مجھے قسور بٹ اور ا±نکے زیر انتظام منعقدہ تقریبات کے سبب بہت پذیرائی ملی میں یہاں یہ بات کہنے میں قطعا" عار محسوس نہیں کرتا کہ خود میرے ذوقِ تخلیقِ سخن کو سنوارنے اور نعت خوانی کے شوق کو نکھارنے میں قسور بٹ اور ا±نکی تنظیم "ساہیوال اکیڈمی" کا بڑا دخل ہے۔ 
قسور مبارک بٹ صاحب اسلوب شاعر منیر نیازی کے قدیمی محلہ عید گاہ ساہیوال میں مقیم تھے۔منیر نیازی تا عمر ا±ن سے رابطے میں رہے بہت سال پہلے ایک موقعہ پر جب میں اور شاعر واصف سجاد ٹاو¿ن شپ لاہور میں واقع منیر نیازی کی رہائش گاہ پہنچے تو ساہیوال سے تعلق کی بنا پر وہ ہمارے ساتھ بہت عزت و تکریم اور شفقت سے پیش آئے دوران ملاقات وہ ہم سے قسور بٹ کے بارے میں خاص طور پر پوچھتے رہے۔
قسور بٹ محبتوں سے لبریز اس شخص کا نام تھا جس نے بڑی بھر پور زندگی گزاری۔ یہ قسور بٹ کی طلسماتی شخصیت ہی کا کرشمہ تھا جس کی وجہ سے "ساہیوال اکیڈمی" کے تحت ہونیوالی تقریبات میں ہمیں شعر و ادب کی بڑی بڑی بلند قامت شخصیات کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ 
دوستوں میں تاعمر خوشیاں بانٹنے والے قسور بٹ کچھ عرصہ قبل عارضہءقلب میں مبتلا ہونے کے بعد شوگر جیسے موذی مرض کی زد میں بھی آگئے انکے بائیں پاو¿ں پر زخم آنے کی وجہ سے انکی دو تین مرتبہ معمولی سرجری بھی ہوئی جس سے بہتری کی صورت نکلنے کی بجائے زخم بگڑتا چلا گیا۔ اس صورتحال میں کچھ عرصہ پیشتر انکی بائیں ٹانگ پنڈلی سے کاٹ دی گئی۔ وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ساہیوال کے رحمتہ للعالمین بلاک میں داخل رہے۔
میں بسلسلہءروز گار ملتان تھا دو روز قبل واصف سجاد نے فون پہ بتایا کہ قسور بٹ بھی داغِ مفارقت دے گئے یہ س±ن کر میں تو جیسے اپنے حواس پہ قابو ہی نہ رکھ سکا اور نم آنکھوں سے ماضی کے ا±ن دنوں کی یادوں میں کھو گیا اور روحانیت کے ماحول میں جا پہنچا جب قسور بٹ بڑے ہی والہانہ انداز میں صوفی شاعر مادھو لال حسین کے میلہ چراغاں کی مناسبت سے کسی تقریب کے انعقاد کے موقع پر سینکڑوں چراغ روشن کرنے میں مگن اور سرشار دکھائی دیتے تو کہیں سلطان العارفین حضرت سلطان باہو ، حضرت بابا فرید گنج شکر اور حضرت میاں محمد بخش کھڑی شریف والوں سے اپنی روحانی عقیدت کا عملی اظہار کرتے ہوئے۔صوفیوں کی طرح زندگی بسر کرنیوالے مسائلِ زمانہ اور معاملاتِ دنیا سے دوری کی مسافت پہ اپنا مستقر بنانے والے قسور بٹ کی رحلت نے دل کو ایسے دکھ اور صدمے سے دو چار کر دیا ہے جو دائمی بھی ہے اور آفاقی بھی۔میں اپنے اس محسن اور مربی کے درجات کی بلندی کیلئے اللہ رب العزت کی بارگاہِ عظیم و برتر میں دعا گو ہوں؟

ای پیپر دی نیشن