یہ بات غالبا کسی سے بھی پو شیدہ نہےں کہ دہلی کا حکمران ٹولہ گزشتہ 30برس سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے حصول کی خاطر طرح طرح کے جتن اور سازشیں رچ رہا ہے ۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں پاک وزیر خارجہ کے خلاف بھارت انتہائی نفرت انگیز مہم چھیڑے ہوئے ہے کیوں کہ چند روز قبل بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر اعظم کی مسلم دشمنی کی بابت ایسے سچ بولے تھے کہ جو مودی سرکار کو تا حال ہضم نہےں ہورہے اور اسی وجہ سے مودی کی پاکستان کےخلاف ہزرہ سرائی میں شدت آگئی ہے ۔ اسی تناظر میں بھارتی سرکار کی کہہ مکرنیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ اس امر کو برصغیر پاک و ہند کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ خواتین کی بے حرمتی بڑی حد تک روز کا معمول بنتی جارہی ہے ۔خصوصا حالیہ ہفتوں میں تو خود پاکستان میں یہ لعنت ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔مبصرین کے مطابق ایک برس قبل تک بھارت کو ’ریپ کیپیٹل آف انڈیا‘مانا جاتا تھا مگر اب تو لگتا ہے کہ پورا جنوبی ایشیاءہی اس وبا کی زد میں ہے ۔دوسری طرف غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت کے سبھی ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں 47 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اس سے ”نیو انڈیا“ اور ”شائنگ انڈیا“ کے دعوﺅں کی حقیقت بڑی حد تک واضح ہو گئی ہے۔
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں یہ برہمنِ بھارت کی فتوحات
یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ بھارتی راجدھانی دہلی کو بجا طور پر ”ریپ کیپیٹل آف انڈیا“ کا نام دیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ بھارت میں ہر روز 88 خواتین کی اجتماعی عصمت دری ہوتی ہے، ان میں سے 17 لڑکیاں راجستھان کی جبکہ 9 اترپردیش کی ہوتی ہے۔ یہ تعداد گینگ ریپ کا شکار ہونے والی لڑکیوں کی ہے، یعنی ان واقعات میں 3 سے زیادہ افراد ملوث ہوتے ہیں، دوسری کیٹگری کی تعداد ان اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ بھارت میں 2015 میں 34,651، 2016 میں 38,947، 2017 میں 32,559، 2018 میں 32,632 اور 2019 میں گینگ ریپ کے تقریباً 33 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے اور 2019 میں خواتین کیخلاف جرائم کے 4 لاکھ 5 ہزار 861 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 3,78,236 تھی، یعنی 2018 کے مقابلے میں بھارتی خواتین کیخلاف جرائم میں یکایک 7.3 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ تعداد صرف ان جرائم کی ہے جن کی باقاعدہ رپورٹ درج کرائی گئی، جبکہ ایک سروے کے مطابق بھارتی خواتین کیخلاف جرائم کے صرف 20 فیصد واقعات کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے، بدنامی اور انصاف کی عدم فراہمی کیوجہ سے بھارتی شہری ان واقعات کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔واضح ہو کہ ان خواتین میں بہت بھاری تعداد مسلم اور دلت خواتین کی ہے۔ اترپردیش میں 2019 میں ان کیسز کی تعداد 59,853 تھی، یعنی خواتین کیخلاف کل جرائم کا 14.7 فیصد صرف اترپردیش میں ہوتے ہیں۔ 2018 میں راجستھان میں عصمت دری کے 27866 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد یکدم 41550 تک پہنچ گئی، یعنی ان جرائم میں یکایک 33 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ہندوستان کے حکمران طبقات تو اکثر اپنی نام نہاد بڑائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، جبکہ ناقدین کی رائے میں دہلی سرکار کے بالا دست طبقات اجتماعی گراوٹ کاشکار ہےں۔ اسی متضاد صورتحال کا جائزہ لیتے بہت سے انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ بھارت میں خواتین طرح طرح کے مظالم سہہ رہی ہیں اور ان کے ساتھ بھارتی معاشرے کے طرز عمل کو کسی بھی طور مساویانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قبائلی ہندو خواتین کی حالت تو ایسی قابل رحم ہے جن کا تصور بھی دور حاضر میں نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں نکسل تحریک کے فروغ میں اسی عنصر کا بنیادی عمل دخل ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کل رقبے میں سے 40 فیصد حصے پر عملی طور پر نکسل گوریلوں کا کنٹرول ہے اور تقریباً ہر روز ان کی کاروائیوں میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار اور عہدیدار ہلاک ہو رہے ہیں۔نکسل خواتین کی حالت زار کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ممتاز ہندو خاتون صحافی اور دانشور ارون دھتی رائے نے انکشاف کیا کہ بھارتی معاشرے میں خانہ بدوش ہندو قبائلی خواتین کو اپنی شادی کے بعد اپنے جسم کا اوپری حصہ عریاں رکھنا پڑتا ہے اور اکیسویں صدی میں بھی ان کروڑوں بے کس ہندو خواتین کو اونچی ذات کے ہندوﺅں کے بنائے ان گھٹیا اور فرسودہ قواتین کی سختی سے پابندی کرنی پڑتی ہے اور حد درجہ امتیازی سلوک کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ دلچسپ مگر افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں منظم انداز میں ہو رہا ہے جہاں ایک خاتون 16 برس سے زائد عرصہ تک وزارت عظمیٰ (مسز اندرا گاندھی) کے منصب پر فائز رہی ہیں اور ابھی بھی کانگرس کی اصل سربراہ سونیا گاندھی ہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی رابڑی دیوی، مایا وتی، ممتا بینر جی، جے للیتا (آنجہانی)، شیلا دکشت(آنجہانی) جیسی خواتین بھارتی سیاست میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود خواتین کی حالت زار میں نمایاں بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں اور انہی علاقوں میں نکسل تحریک کا زیادہ اثر و رسوخ بھی ہے۔ مندرجہ بالا مختصر تجزیہ کے بعد شاید کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی صنف یا گروہ کے چند افراد کے نمائشی عہدے حاصل کر لینے سے اس پورے طبقے کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس بات سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ بھارت جیسی غیر مساوی بلکہ ظالمانہ سوسائٹی جیسے مزاج کا حامل معاشرہ یا ریاست زیادہ دیر تک اپنی موجودہ ہیئت اور سالمیت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔