پاکستان میں اس وقت سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے۔ جو قومی مفاد کے منافی ہے ایک انتہا پر اعتماد حکومت کھڑی ہے تو دوسری انتہا پر پی ٹی آئی بطور اپوزیشن پارٹی کھڑی ہے، معاشی حالت بھی ابتر ہے ۔ فریقین ایک دوسرے پر سخت تنقید کر رہے ہیں اور اس سنگین صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ۔ صدر مملکت کی خواہش ہے کہ وطن عزیز اس محاذ آرائی سے باہر نکلے اور قومی قیادت ملک کی تعمیر و ترقی اور استحکام کا اولیت دے۔ 2018 ءکے انتخابات میں عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اپوزیشن جماعتوں ان کی حکومت کو حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی اپوزیشن پارٹیوں کا موقف تھا کہ وہ سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں۔ اپوزین صاف اور شفاف انتخابات کرانے کا مطالبہ کر تی رہی۔ با لآخر اپوزیشن پارٹیاں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہو گئی۔ پی ٹی آئی حکومت ختم ہو گئی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں نئی وفاقی حکومت قائم ہو گئی۔
اتحادی حکومت کے فوراً بعد عمران خان نے ملک میں نئے انتخابات تحریک شروع کر دی انہوں نے کہا کہ ملک کو در پیش مسائل کا حل صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد میں ہے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت یعنی اکتوبر 2023ءمیں ہونگے اور اتحادی حکومت آج تک اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور بار بار اعلان کراہی ہے۔ کہ انتخابات مقررہ ووقت پر ہونگے پی ٹی آئی نے اپنے مطالبہ کو منانے کے لئے
عوامی تحریک شروع کر دی انہوں نے ملک کے کونے کونے پر چلے گئے اور عوام کو بیدار کیا ان کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہو ا۔ اور ان کے جلسوں میں عوام کی بڑکی تعداد شامل ہو کر ان کے مطالبات کی تائید کرتی چلی آرہی ہے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتے ہیں دوسری طرف اتحادی حکومت بھی پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر تنقید کررہی ہے اور ان کو خطر ناک قرار دے رہی ہے حکومت کا نعرہ ہے ۔
جلسوں کے بعد پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا ۔ پی ٹی آئی پہلا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ کر 25مئی2022ءکو ختم ہوا جس کے نتیجہ میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کے خلاف فوجداری مقدمات رجسٹرڈ ہوئے اس کے بعد چیئرمین عمران خان کے لاہور لانگ مارچ شروع کیا ۔وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اس وجہ سے انہوں نے لانگ مارچ مﺅخر کر دیا۔ دوسرا لانگ مارچ 26نومبر 2022ءکو راولپنڈی میں ختم ہوا جس کے بعد چیئر مین عمران خان نے اعلان کیا کر دیا کہ وہ پنجاب اور خبیر پختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل کر دینگے اور اس طرح ان صوبوں میں انتخابات ہونگے۔ اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کے اس فیصلہ پر تنقید کی اور اس اعلان کو ناکام بتانے کے لئے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ دوسری طرف پاکستان کے ڈیفالت ہونے کے چرچے ہونے لگے۔ نتیجہ مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ قیادت نے اس مسئلہ کو حکل کرنے لئے صدر مملکت سے رابطہ کیا ، اسحاق ڈار کو اس مشن پر مامور کیا ۔ وزیر خزانہ نے صدر مملکت کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کیا اور انہوں نے صدر مملکت سے کئی ملاقاتیں کیں لیکن برف پگھل نہ پائی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے صدر مملکت سے پہلی ملاقات مں ان کو ملک کو در پیش معاشی مشکلات سے آگاہ کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں۔ وزرا ءنے صدر مملکت کو بتایا کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی عمران خان اور دوسرے لیڈر پرو پیگنڈہ کر رہے ہین کہ پاکستان ڈیفالٹ کر رہا ہے۔ چنانچہ صدر مملکت نے بیان جاری کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کر رہا اور ایسا کہنا ملک کے مفاد کے منافی ہے ۔ صدر مملکت نے وزیر خزانہ کو بنایا کہ پاکستان پہچانی کیفیت ہے اس لئے ضروری ہے حکومت انتخابات کرانے کے بارے میں پالیسی مرتب کر ے۔ وزیر خزانہ نے انتخابات کے متعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف سے مشاورت کی۔ دونوں کا فیصلہ تھا کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے اور قبل ازیں انتخابات کا کوئی امکان نہیں ۔ اس کے بعد بھی وزیر خزانہ نے صدر مملکت سے ملاقاتیں کیں اور ان کے اپنے قائدین کی رائے سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہا کہ جلد انتخابات کی صورت میں پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھ جائیگا ۔ صدر مملکت کی خواہش ہے کہ دونوں پارٹیاں ان کو اختیار دیں اور وہ اس مسئلہ کو حل کر دینگے جس کے نتیجہ میں ملک سیاسی بحران سے باہر نکل آئیگا۔ لیکن اتحادی حکومت مقررہ وقت پر اپنی انتخابات کرانے کا بارر بار اعلان کر رہی ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے چیئر مین فوری انتخابات کے حق میں ہیں۔ اس لئے یہ مشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ تاہم صدر مملکت کی خواہش ہے کہ افہام و تفہیم سے یہ مسئلہ حل ہو جائے جو قومی مفاد میں ہے