سیلاب کیوں آتے ہیں؟ 


 سیلاب کیوں آتے ہیں اور اس کی روک وتھام کس طرح ممکن ہے سیلاب ناقص منصوبہ بندی اور اور بر وقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے آتے ہیں یہ قدرتی آفات ہوتی ہیں ان کو روکا تو نہیں جا سکتا ہے لیکن کم ضرور کیا جا سکتا ہے سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لیے ڈیزسٹرمنیمنٹ کو قدرتی آفات آنے سے پہلے اقدامات اور حفاظتی اقدامات کرنے ہوتے ہیں جو وہ نہیں کرتی ہے اضلاع میں ڈیزاسٹرمنیمنٹ سیل قائم ہی نہیں ہیں اور ناقص منصوبہ بندی سے کڑوروں کا نقصاں ہو جاتا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ساٹھ لاکھ کسان متاثر ہوئے ہیں سیلاب سے بلوچستان 'سندھ ،کے پی اور پنجاب کے کچھ اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں ہزاروں مکانات گر گئے ہیں فصلوں کو شدید نقصان ہوا ہے جانور مر گئے ہیں سینکڑوں افراد سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور کئی سوافراد زخمی بھی ہوئے ہیں حکومت سیلاب میں شہید ہونے والے اور زخمیوں کی مالی امداد کا اعلان بھی کر چکی ہے کءہزار میل لمبی سٹرکیں تباہ ہوگئیں ہیں نقل و حمل کے ذرائع کو نقصان ہوا ہے لوگ ٹینٹوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اب سیلاب کا پانی تو کافی حد تک متاثرہ علاقوں میں کم ہو گیا ہے لیکن جلدی اور دیگر امراض میں متاثرین مبتلا ہو گئے ہیں ان کی بحالی کا کام جاری ہے اور بیرون ممالک سے امداد بھی آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود سیلاب متاثرین کی بحالی پر ابھی عرصہ درکار ہے ایک طرف ملک کے حالات خراب ہیں سیاسی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف حکومت کو سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی ضرورت ہے حکومت دوہری مشکلات میں پھنس گئی ہے افواج پاکستان بحالی کے کاموں میں دن رات مصروف ہے اور خوردو نوش کی اشیائ کی فراہمی بھی افواج پاکستان کی طرف سے جاری ہے سیلاب سے زمینیں تباہ ہو گءہیں کاشت کاروں کا شدید نقصان ہوا ہے ان کی سال بھر کی کمائی سیلاب کی نظر ہو گئی ہے جس سے ملک کی معیشت پر مزید بوجھ پڑا ہے اور زراعت کو شدید نقصان ہوا ہے سیلاب میں لوگوں کی امداد کے لئے حکومت اعلانات تک محدود نظر آ رہی ہے دوسری طرف حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی سیاست میں مصروف ہے ایک دوسری پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی کو فنڈز ریزنگ کر کے سیلاب متاثرین کے لیے دن رات ایک کر دینا چاہیے سیاست تو ہوتی رہے گی حکومت عمران خان کے خلاف سکینڈیز نبا کراور مہم جوئی کے ذریعہ اس کی سیاست کے خاتمے کا سوچ رہی ہے عمران خان عام انتخابات پر زور دئیے جا رہا ہے لیکن اب عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے نئی چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کا مسلہ بھی زیر بحث ہے ایسی صورت حال میں تمام سیاسی اختلافات بھلا کر سیاسی پارٹیوں کو سیلاب میں بے یارومدد گار متاثریں کی امداد کو نکل آنا چاہئے جو اپنی زندگیاں بچانے کو ترس رہے ہیں            حالیہ بارشوں سے ملک کے بہت سے شہر متاثر ہوئے ہیں جس سے سیلاب سے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں کراچی بلوچستان سندھ سب سے زیادہ ابھی تک متا ثر ہوا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی کئی سال سے سندھ میں حکومت ہے لیکن وہ کراچی کو سیلابی خطرات سے بچانے میں نا کام رہے ہیں ہر سال شدید بارشوں کے سبب پاکستانی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے'قدرتی آفات میں سیلاب طوفان 'زلرلہ اور ناگہانی یعنی اچانک آنے والے واقعات شامل ہوتے ہیں ان کو روکا نہیں جا سکتا ہے بلکہ اس کے نقصانات کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں جس سے آبادی کم متاثر ہوتی ہے حالیہ بارشوں سے جہاں پاکستان سے بہت سے شہروں کو ان ناگہانی واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کراچی میں بارشوں کے بعد زندگی اکثر مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے


 عمران خان کے دورہ حکومت میں کراچی کے ایسے مسائل کے حل کے لئے پیکج کا اعلان کیا گیا لیکن فنڈز ریلز نہیں کئے گئے تھے کراچی بہت بڑا شہر ہے اور پاکستان اس سے زرمبالہ بھی حاصل کرتاہے لیکن یہاں بارشوں میں پانی کے اخراج کے لئے اقدامات کسی حکومت نے نہیں کئے ہیں: پنجاب حکومت نے ریسکیو آپریشن کے لیے36کروڑ روپے بھی جاری کیے اوربعد میں وقفہ وقفہ سے فنڈز جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہے وہ پنجاب کے سیلابی اضلاع میں متاثرین کی بحالی کے کام میں مصروف ہے ،انتظامیہ کو نہروں اور دریاو¿ں کے پشتوں پر نظر رکھنی چاہئے، تیز بہاو¿ کی وجہ سے یہ پشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور سیلابی ریلہ بڑی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ بارشوں اور سیلاب سے جو نقصان ہو چکا ہے آئندہ ا±س سے عوام کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کے لیے متعلقہ محکموں کو جہاں چوکس رہنے کی ضرورت ہے وہاں باہمی رابطے کو بڑھانا بھی ضروری ہے تاکہ کسی ایمرجنسی میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔قدرتی آفات کی بحالی کا کام مشکل مراحلہ ہوتا ہے جس کے لئے فلاحی ادارے اور دیگر ادارے ٹینٹ سٹی قائم کرتے ہیں اور متاثرین کو اشیائے خوردو نوش کا بھی بندوبست کرتے ہیں پاکستان میں بارشوں سے شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور اناج کی قلت پیدا ہو جاتی ہے جس سے درآمدات اور برآمدات کا توازن بھی خراب ہوتا ہے اور کسان خوشحالی کی بجائے پستی کی طرف چلا جاتا ہے مون سون قدرتی امر ہے لیکن اس کے آنے سے قبل اس کے نقصانات سے بچاو کے طریقے اختیار نہیں کئے جاتے ہیں ملک بارشوں سےمعاشی تباہی کی طرف چلا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کے تمام شہروں کے لیئے ایسا انفراسٹریکچر بنائے کہ جس سے بارشوں کے پانی کا اخراج ساتھ ساتھ ہوتا جائے اور نئے ڈیم فورا بنائے جائیں تاکہ بارشوں کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے اور سیلابی پانی کے نقصانات اور تباہی کا تدارک ہو سکے ایک طرف سیلابی و بارشی پانی کی وجہ سے دریا اور ندی نالے ا±بل پڑتے ہیں اور دوسری طرف بھارت اچانک دریاو¿ں میں پانی چھوڑ دیتا ہے جو بھارت نے کر دیکھایا راوی میں پانی چھوڑ دیاجس سے نالہ ڈیک میں طغیانی آ گئی تھی اس سے کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہو ہوئی ہیں اور دیہی آبادی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ہر سال ہمارے متعلقہ محکمے ا±س وقت جاگتے ہیں جب پانی سر سے گزرنے تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ ایک بار کی تباہی کے بعد سبق سیکھنا چاہیے تاکہ دوبارہ ا±س تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑے بھارت کے سرحدی علاقہ نارووال سے دریائے راوی آتا ہے وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں پھر راجن پور ملتان کوٹ ادو میں بھی 2010 میں سیلاب نے تباہی مچا دی تھی حکومت کو مستقبل بنیادوں پر سیلابی بارشوں کی روک وتھام کے لئے ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہئے جس سے ہر سال بارشوں کے پانی کے نقصانات سے بچا جا سکے اور متاثرین کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جائے اور حکومتی نقصانات اور عوامی نقصانات بھی کم ہوں جانوں کا ضیائع ہوتا ہے مکانات گر جاتے ہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اور نظام زندگی مفلوج ہونے سے وسائل کا نقصان علیحدہ ہوتا ہے قدرتی آفات میں غیر سرکاری ادارے بھی متحرک ہو جاتے ہیں اور متاثرین کی مدد کرتے ہیں سکن اور پیٹ کے امراض سے لوگ متاثر ہوتے ہیں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میڈیکل کیمپس لگاتے ہیں اور مریضوں کا علاج کرتے ہیں
: حکومتی ناقض اتتظامات کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔اس سال یہ شرح کچھ زیادہ ہی ہے اس سال بارشوں کا 36 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور سیلاب متاثرین میں پہلے کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا ہے پاکستان میں مون سون عام طور پر جولائی سے ستمبر تک چلتا ہے، اسی طرح گلیشیر بھی پگھلتے ہیں اور دریاو¿ں میں سیلاب آ جاتا ہے، ایک طرف بارش کا پانی تو دوسری طرف سیلابی ریلے، خاص طور پر کچی بستیوں اور دیہی علاقوں میں تباہی مچاتے ہیں۔پانی بلاشبہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے اورماہرین کے مطابق بارشوں کی کاشت کاری کے لیے اشد ضرورت ہوتی ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور معمول سے زیادہ بارشیں بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں اب تک ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے جی ڈی پی کا25.5فیصد نقصان ہو چکا ہے۔پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی صوبائی اتھارٹیاں قائم ہیں۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اداروں میں ہر سال کاغذی سکیمیں بنتی ہیں اور عملی اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے سیلابی ۔تباہی کے بعد تو ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کام شروع ہوتا ہے مگر جو ادارے یا محکمے حفاظتی انتظامات کے لیے بنائے گئے ہیں وہ مون سون کے شروع ہونے سے پہلے انتظامات کیوں نہیں کرتے؟ کہیں نالوں کی صفائی نہیں ہوتی اور کہیں سیوریج کے نظام کی صفائی نہیں کی جاتی،تھوڑی سی بارش سے شہر وں میں جل تھل شروع ہو جاتی ہے قدرتی آفات پاکستان کا ہی مسلہ نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ اور یورپی ممالک میں بارشوں سے نظام زندگی درھم برھم ہو جاتا ہے حالانکہ ان ممالک کا ملکی ڈھانچہ ہم سے زیادہ مضبوط ہے پاکستان میں پانی کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے مناسب منصوبہ بندی نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال سیلاب آتا ہے مستقبل بنیادوں پر حکومت کو سیلاب سے بچاو کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک کی معیشت کو ہر سال نقصان نہ ہو اب ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لڑائی جاری ہے اور دوسر ی طرف سیلاب ہے حکومت کی مشکلات میں سیلاب کی وجہ سے اضافہ ہو گیا ہے جو ان کے لئے امتحان ہے کیونکہ معیشت پر سیلاب کا بو جھ بھی اب ایک اور مشکل میں اضافہ ہے ان مشکلات سے کیسے نکلنا ہے موجودہ حکومت کو بڑی سوچ و سمجھ کر اب فیصلے کرنے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ کی ساکھ مضبوط ہو سکے

ای پیپر دی نیشن