نئے نظام کے شوقین؟

Dec 19, 2022


رابرٹ موگابے نے افریقہ کے چند پسماندہ ترین ممالک میں شامل زمبابوے پر 1987سے 2017تک یعنی تقریبا 4دہائی حکومت کی،تقریبا اتنی ہی مدت تک ایک اور افریقی ملک سوڈان پر فیلڈ مارشل عمر البشر کے اقتدار کی چادر تنی رہی۔ یمن پر 1990سے اب تک صرف 2ہی لوگ حکومت کر رہے ہیں پہلے علی عبد اللہ صالح اور اب منصور ہادی اور یہی حال آدھے سے زیادہ افریقی ممالک کا ہے،جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے صدارتی نظام سایہ فگن ہے ۔یہ تمام لوگ اپنے اپنے ملکوں میں بطور صدر موجود رہے،یعنی ان ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے۔جاپان دنیااس وقت 4.872ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ مشرقی ایشیا میں جزائر پر مشتمل اس ملک پر 4د ہائی میں 20وزرائے اعظم آ چکے ہیں،جاپانیوں پر تو جواہر لال نہرو کا وہ مشہور جملہ صادق آتا ہے جو حقیقت میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا۔جواہر لال نہرو کا کہنا تھا کہ میں سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان وزیر اعظم بدلتا ہے۔اسی طرح یورپ کا گرو برطانیہ ہے جہاں گزشتہ کئی سو سالوں سے پارلیمانی نظام رائج ہے اور 1980سے اب تک تقریبا 9وزرائے اعظم آ چکے ہیں، تاہم برطانوی معیشت دنیا کے ٹاپ 5ممالک میں ہی نظر آئے گی،یہی حالت تقریبا سارے یورپ کی ہے۔جدید دنیا میں نظام حکومت کے مشہور ترین دو طریقہ کار رائج ہیں ایک صدارتی اور دوسرا پارلیمانی،تقریبا 90فیصد ممالک کا کار ہائے حکومت ان ہی دو نظام کے تحت چل رہا ہے،آپ اندازہ لگائیں اگرصدارتی نظام اتنا ہی اچھا ہے تو زمبابوے، یمن، سوڈان، کینیا، گھیمبیا، میکسیکو اور درجنوں دیگر ممالک کی قسمت کیوں نہیں جا گ رہی؟اگر پارلیمانی نظام اتنا ہی برا ہے تو ہمیں جاپان،برطانیہ،پورپ کے ہاتھوں میں کشکول کیوں نظر نہیں آتا؟ روس ،چین ،اور تقریبا سارا ہی وسطی ایشیا ایسے صدارتی نظام کے تحت ہے جس کی تمنا کچھ پاکستانیوں کو ہے مگر وہ ایوب خان کا 12سال، ضیا کا 11سال ،یحی خان اورپرویز مشرف کا 13سال پر مشتمل طویل مارشل لا بھول جاتے ہیں۔مارشل لا کے تحت فرد واحد ملکی نظام کا رکھوالا ہوتا ہے، ان خواہشمندوں کو صدارتی نظام کے تحت امریکہ کی 19.485 ٹریلین ڈالر کی معیشت تو نظر آتی ہے مگر اسی امریکی سرحدوں سے جڑے میکسیکو کے صدارتی نظام کے ثمرات انہیں نظر نہیں آتے جہاں کے باسی کئی دہائیوں سے ہر روز ریو گرینڈے بارڈر کراس کرنے کا خواب لے کر سوتے ہیں۔پاکستان کو تجربہ گاہ اور خود کو اس تجربہ گاہ کا آئن اسٹائن سمجھنے والے امریکی سرحد پر موجود کینیڈا کا پارلیمانی نظام کیوں بھول جاتے ہیں جو اسی پارلیمانی نظام کے سائے میں امریکا سے بڑی فلاحی ریاست کے طور پر موجود ہے ۔صدارتی نظام کے حق میں دلائل دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ زمبابوے، یمن، سوڈان اور تقریبا آدھے افریقہ میں بھی صدارتی نظام ہے مگر ان کی دانست میں خوبیوں سے بھرا اور غلطیوں سے پاک یہ نظام ان مجبوروں پر تنی سیاہ چارد میں کوئی ایک بھی سوراخ کیوں نہ کر سکا؟ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں صدارتی نظام لانے کی چنگاری کہاں سلگ رہی ہے مگر پتے کی بات تو یہ ہے کہ نظام تب غیر متعلق ہو جاتا ہے جب نظام چلانے والے ہی ٹھیک نہ ہوں، جب لیڈر فیصلے پولرائزیشن کی بنیاد پر کریں،لوگوں کو ذمہ داریاں ان کی پگ دیکھ کر دی جائیں اور ایک پوری قوم بس ایک ریو ڑ کی مانند نظر آئے۔بس صدارتی نظام کے شوقین ذوق و شوق سے یہ تجربہ کریں مگر وہ رابرٹ موگابے کو نہ بھولیں جس نے 27سال اپنے ملک پر صدارت کی، موگابے آیا، چلا گیا مگر زمبابوے آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ گھٹنوں تک مایوسیوں، حسرتوں اور ناکامیوں کی دلدل میں دھنسا ہوا۔ ہم آسٹریلیا، جاپان، برطانیہ اور کینیڈا سے تو سبق نہ سیکھ سکے کم از کم زمبابوے کے رابرٹ موگابے کا حال ہی دیکھ لیں

مزیدخبریں