خواتین کھیلوں کے انتظامی امور میں قائدانہ کردارادا کرنے کو تیار ہیں


پاکستان میں خواتین ہاکی کی زبوں حالی اورحکومتی بے حسی 
ہاکی کی انٹرنیشنل پلئیر رابعہ قادر سے خصوصی انٹرویو  
ماضی میں فنڈز کی بھرمار کے باوجود خواتین ونگ کو بااختیار بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی
 ویمن ونگ پر براجمان خواتین نے بھی اس پوزیشن کو محض خود نمائی اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا
 اچھا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو چیلنجز سے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے ان کا سامنا کرے
عنبرین فاطمہ 
پاکستان میں خواتین ہاکی کی زبوں حالی میں حکومتی بے حسی کے ساتھ ساتھ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا بھی اہم کردار ہے جس نے کبھی خواتین ہاکی کو اس کا جائز مقام نہیں دیا۔ ماضی میں فنڈز کی بھرمار کے باوجود خواتین ونگ کو بااختیار بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اس پر اپنا کنٹرول رکھنے کیلئے مالی معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا گیاتاکہ خواتین ہمیشہ ان کی محتاج رہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ویمن ونگ پر براجمان خواتین نے بھی اس پوزیشن کو محض خود نمائی اور اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا جس کے باعث خواتین قومی کھیل کا بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہ کرسکیں۔ ملک میں

 خواتین ہاکی کے فروغ اور ترقی کیلئے اس پر ہمیشہ سے قائم مردوںکی اجارہ داری ختم کرکے باگ ڈور ایسے لوگوں کے سپرد کی جائے جو کھیل کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کوچنگ اورایڈمنسٹریشن میں بھی ان کے کردار کو اہمیت دیں۔ان خیالات کا اظہار ہاکی کی انٹرنیشنل پلیئر رابعہ قادرنے نوائے وقت  کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی کے کھیل کو ہمیشہ سے ہی اگنور کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی کھیل ہاکی کی تباہی پر میرا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے، ہمارے کھلاڑیوں نے محنت، جہد مسلسل اور جانفشانی کے بعد ہاکی میں ملک و قوم کا نام روشن کیا  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں مفاد پرستی، ذاتی عناد اور اقرباء پروری عام ہوئی جس کی وجہ سے ہاکی تنزلی کا شکار رہنے لگی۔ ایک سوال کے جواب میں رابعہ قادر نے کھلاڑیوں کو دوران کیرئیر درپیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے اپنے تجربا ت کی روشنی میں مختلف طریقے بتائے۔انہوں نے کہا کہ اچھا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو چیلنجز سے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے ان کا سامنا کرے اور مشکل حالات میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کھلاڑیوں کو ہمیشہ سے مشکلات کا سامنا رہا مجھے بھی کئی بار کھیل کو چھوڑنے کا خیال آیا لیکن مضبوط اعصاب اور ذہنی پختگی کے باعث میں نے ہمت نہیں ہاری اور یکسوئی سے اپنے ہدف کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ۔رابعہ نے کہاکہ خواتین کھیلوں کی ترقی اور معیار میں بہتری کیلئے کوچز ، سپورٹس لیڈرز اور منٹورز کا بہت اہم کردار ہے۔ ماضی کی نسبت آج ایسے لوگوں کی شدید کمی ہے جو نوجوان خواتین کھلاڑیوں کو درست سمت دکھائیں اور ان کے ٹیلنٹ کے مطابق کھیل 

کے انتخاب میں مدد کریں ایسے میں کورس کی شرکاء پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہاں سے حاصل ہونے والے علم کو عملی زندگی میں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی اپنی فیلڈ میں خواتین کھلاڑیوں کی نئی کھیپ تیار کریں۔رابعہ قادر نے مزید یہ بھی کہا کہ گزشتہ 75 سالوں سے خواتین کی کھیلوں پر مردوں کی اجارہ داری ہے جنہوں نے ایک منصوبے کے تحت خواتین کو ایڈمنسٹریشن اور کوچنگ سمیت کھیلوں کے دیگر شعبوں میں آگے آنے نہیں دیاتاہم اب وقت آگیا ہے کہ خواتین آگے آئیں اور کھیلوں کے شعبہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ اگر مختلف قسم کے کورسز کروائے جاتے ہیں تو ان کا مقصد ایسی خواتین سپورٹس لیڈرز تیار کرنا ہے جو اپنے اپنے شعبہ میں خواتین کی نہ صرف نمائندگی کریں بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہوئے کوچنگ، ایڈمنسٹریشن سمیت تمام شعبوں میں آگے آئیں۔انہوں نے کہا کہ ہاکی کی ترویج اور ترقی کے لئے منعقد کئے جانے والے مختلف قسم کے پروگراموں نے دنیا بھر میں خواتین کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔ میںخود اسی کی بدولت پاکستانی خواتین کو کھیلوں کے شعبہ میں آگے لانے کیلئے کوشاں ہوں۔ رابعہ قادر نے کہا کہ جی ایس ایم پی (گلوبل سپورٹس مینٹورنگ پروگرام) کے تعاون سے شروع کئے جانے پروگراموں کی بدولت ہماری دو بچیاں عمارہ خالد اس وقت سو فیصد سکالرشپ پر کنیئرڈ کالج میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جو آنے والے وقت میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کریںگی اس کے علاوہ ہماری اکیڈمی کے کوچ عبدالباسط قومی سطح پر خواتین اتھلیٹس کو ٹریننگ دے رہے ہیں حال ہی میں ان کی تربیت یافتہ کھلاڑی نے قومی اتھلیٹکس چیمپئن شپ کے لانگ جمپ اورٹرپل جمپ ایونٹس میں گولڈ میڈل جیت کر ریکارڈ قائم کیا ہے۔
ہاکی کی نیشنل پلیئر رابعہ قادر نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں خواتین کھلاڑی اپنی برینڈنگ کرکے سپانسر شپ 

کے ذریعے پیسہ کما رہی ہے لہذا پاکستان میں بھی خواتین کو فیڈریشن یا حکومتی امداد پر انحصار کرنے کی بجائے خود کو مالی طور پر بااختیار بنانے پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے پاکستان میں کھیلوں کے فروغ اور تربیت کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بہت سی مشکل چیزوں کو آسان بنایا جاسکتاہے ۔رابعہ قادر کہتی ہیں کہ کھیل انسان کو خوش رہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جس سے اس کی ذہنی اور جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے جب ایک کھلاڑی ٹریننگ کے ساتھ خوش رہنا سیکھ جاتا ہے تو اس کی کارکردگی میں بہتری آتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ کھلاڑی کا میچ سے قبل اخبارات اور سوشل میڈیا سے دور رہنا ، مناسب مقدار میں پانی پینا اور بھرپور نیند لینا بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سپورٹس میڈیسن کے شعبہ میں خاصی ترقی کی ہے  بہت سے ڈاکٹر اس وقت پورے ملک میںکھلاڑیوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر بنانے پر کام کررہے ہیں۔ کھلاڑیوں کو ذہنی اور جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کیلئے ٹریننگ شیڈول اور خوراک کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں کو روایتی طریقوں کے ساتھ جدید تحقیق سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور اس مقصد کیلئے سپورٹس فزیشن اور غذائی ماہرین سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین میں سخت محنت کرنے اور نئی چیزوں کو جلد سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔رابعہ قادر نے آخر میں کہا کہ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ناکامی کا خوف انسان کی ترقی کی راہ میں سب سے رکاوٹ ہوتا ہے جو بھی اس خوف سے نجات حاصل کرلے زندگی میں کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں ریفری گھر سے سیدھا گرائونڈ میں آکر میچ کروادیا کرتے تھے لیکن اب یہ طریقہ کار ختم ہوگیا آج ریفری کو میچ کی تیاری کیلئے کھلاڑیوں کی طرح کئی روز پہلے تیاری شروع کرنا پڑتی ہے جبکہ بڑے ایونٹس
 کیلئے ریفریز کو ریفریشر کورس بھی کرایا جاتا ہے۔ ایک اچھا ریفری وہی ہے جو میچ کو صورتحال کے مطابق کنٹرول کرے کبھی سختی اور کبھی پیار سے کھلاڑیوں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ وہ گرائونڈ میں اپنی مرضی نہیں کرسکتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائنل 

ای پیپر دی نیشن