احسن صدیق
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی) کے ریجنل چیئرمین محمد ندیم قریشی نے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز کے بارے میں نوائے وقت کو انٹرویو میں کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایف پی سی سی آئی کا پاکستان میں معیشت کی بہتری کے لئے جو کردار ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔ ہمسایہ ملک بھار ت میں ایف آئی سی سی آئی کا معیشت کی بہتری میں اتنا موثر کردار ہے کہ وہ حکومت کو بجٹ بنا کر دیتے ہیں۔ اور حکومت کو بھی جب کبھی کوئی اقتصادی مسئلہ درپیش ہو ان سے تجاویز مانگتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں کاروباری برادری کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم جس میں ساٹھ چیمبرز چوبیس ویمن چیمبرز بارہ سمال ٹریڈرز چیمبرز اور ایک سو پچاس ملکی سطح کی ایسوسی ایشنز ہیں حکومت ایف پی سی سی آئی سے اس طرح کی کوئی مشاورت نہیں کرتی۔ بلکہ ملاقات کیلئے متعدد بار یاد دہانی کروا کر وقت لینا پڑتا ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے ۔ میں یہاں آنے سے قبل ایک وفد لے کر میاں نواز شریف صاحب کے پاس لندن گیا اور انہیں معیشت کی بہتری کے حوالے سے مختلف تجاویز دیں اور ان کو کہا کہ پاکستان کے بارے میں سوچیں۔ آپ میثاق جمہوریت پر کام کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ میثاق معیشت بھی کریں۔ اس کے بعد ہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بھی ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ جب تک آپ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کریں گے تب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
بزنس کمیونٹی روزانہ 150سے400ڈالر جرمانے کی مدمیں ادا کر رہی ہیں۔ ہم نے وزیر خزانہ کو اپیل کی کہ جو مال رکا ہوا ہے اسے ضرور روکیں لیکن اسے آف لوڈ کر کے باؤنڈڈ وئیر ہاؤسز میں منتقل کر دیں اس سے بزنس کمیونٹی ڈیمریج سے بچ جائے گی اور شپنگ کمپنیوں کا ڈی ٹیشن ڈیمریج بھی بچ جائے گا۔ اس ضمن میں ایف پی سی سی آئی نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ اگر سٹوریج کیپسٹی نہیں ہے تو ہم وہ مہیا کر دیتے ہیں۔ حکومت اس کو آفیشل باؤنڈڈ ہاؤسز بنا دے لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت کس سوچ میں کیا کرنا چاہتی ہے۔حکومت لگژری آئٹمز پر پابندی عائد کرے لیکن انڈسٹری چلنے کے لئے جو خام مال اور ضروری پرزے ہیں انہیں آنے دے۔ حکومت نے ان کو روکا ہوا ہے اس سے بزنس کمیونٹی کو دو نقصان ہو رہے ہیں جو مال درآمد کیا گیا اس پر ڈیمریج پڑ رہا ہے اور ایک ڈیمریج شپنگ کمپنیاں ڈالر میں وصول کر رہی ہیں۔
آج کی تاریخ تک انٹر بینک میں ڈالر کی 225روپے کے لگ بھگ ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 250روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کئے گئے۔ جو لوگ ٹور ازم کے لئے باہر جارہے ہیں حکومت نے انہیں بھی نہیں روکا حالانکہ انہیں اپیل کی جانی چاہیے تھی کہ وہ دو سال کے لئے اپنی فیملیوں کے ہمراہ بیرون ملک نہ جائیں۔پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ ایک سیکرٹری کو چھ ماہ بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔انتظامی مور میں تسلسل نہیں،طویل مدت کے لئے کوئی منصوبہ بندی یا پالیسی نہیں بنائی گئی۔سارا خام مال انڈسٹریز کے پرزے پورٹ پر روک لئے گئے ہیں۔ متعدد صنعتیں شدید مسائل کا شکار ہیں۔ آئی ٹی کے لئے مطلوبہ آلات کوپورٹ پر روک لینے سے یہ سیکٹر کیسے کام کر ے گا ،برآمدات کیسے ہوں گی۔ بھارت کی مثال دی جاتی ہے کہ اس کی آئی ٹی کی ایکسپورٹ کا حجم 250ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی آئی ٹی کی برآمدات صرف دو سے تین ارب ڈالر کی ہیں۔ حکومت نے آئی ٹی سیکٹر اور دیگر ضروری اشیاء کو بھی چیپڑ 84،85میں ڈال دیا ہے۔
حکومت نے غیر ضروری درآمدات کم کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ آئل امپورٹ کی بچت کے لئے ہفتے میں دو دن گاڑیاں نہ چلائی جائیں اس ضمن میں بھی کچھ نہیں کیا گیا جس کے باعث ہمارا سالانہ امپورٹ بل اسی ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ایکسپورٹ ایک دن میں نہیں بڑھائی جا سکتی لیکن امپورٹ کو کم کیا جا سکتا ہے۔بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن پر پابندی عائد کر کے امپورٹ بل کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت نے نہ ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دی نہ امپورٹ کم کرنے کے لئے کوئی اقدام کیا۔ اس کے برعکس ان چیزوں کی امپورٹ روکی جارہی ہے جن سے ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ہم گرین انرجی کی بات کرتے ہیں مگر سولر کی مصنوعات درآمد کرنے کے لئے ایل سیز نہیں کھل رہی ہیں۔
انہوں نے کہاملک کی ستر فیصد انڈسٹری کا انحصار زراعت پر ہے۔ پولٹری، ٹیکسٹائل، شوگر انڈسٹری زراعت پر انحصار کرتی ہیں۔ موجودہ اقتصادی بحران کا واحد حل ہے کہ ملک میں زراعت کے شعبے کو ترقی دی جائے اگر ایسا ہو جائے تو جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 19.5فیصد سے بڑھ کر 25فیصد ہو سکتا ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال گزشتہ مالی سال کے مقابلے میںسیلاب کے باعث ملک میں زرعی پیداوار تیس سے پینتیس فیصد کم ہو گی۔ اگر سیلابی پانی بروقت نکال دیا جاتا تو ملک میں گندم کی زبردست فصل ہونا تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جو سیلاب آیا اس کی سب سے بڑی وجہ ڈیمز اور پانی کے ذخیرے کا انتظام کا نہ ہوناتھا۔اگر ہم نے ڈیمز بنائے ہوتے اور پانی کے ذخیرے بنا لیتے تو یہ پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا اور اتنی تباہی بھی نہیں ہونی تھی۔ ملک میں چوبیس ملین ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے اس سال اندازہ ہے کہ بیس سے اکیس ملین پر گندم کاشت ہو گی۔ کپاس کاحال سب کے سامنے ہے۔ پہلے کپاس کی ایک گانٹھ 175کلو کی ہوتی تھی اب 150کلو گرام ہے۔ اگرکپاس کا بیج تیار کیا ہوتا ہے تو آج کپاس کی پیداوار اڑھائی کروڑ گانٹھ ہوتی جو اس وقت ایک سو پچاس کروڑ گانٹھیں ہیں۔
ملک میں موسمیاتی تبدیلی آئی لیکن اس کے لئے بھی کچھ نہیں کیا گیا،کسانوں کو آگاہی میں نہیں دی گئی۔اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی سیڈ تیار کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے زراعت پر توجہ دی ہوتی تو آج ہم زرعی پروڈکٹ درآمد کی بجائے برآمد کر رہے ہوتے۔اگر ہم اپنی فی ایکٹر پیداوار ٹھیک کر لیں تو ہم لاکھوں ڈالر اس سے حاصل کر سکتے ہیں۔گند م میں ہم خود کفیل تھے اور اس کو برآمد کر رہے تھے مگر آج ہم گند م درآمد کر رہے ہیں۔ پام آئل کا درآمدی بل تیسرا بڑا بل ہے۔ ملک میں کینولہ کی پیداوار آئیڈیل صورتحال ہے جیسے ہی کپاس کی چنائی مکمل ہو ستمبر میں کینولہ لگایا جائے یہ فصل مارچ تک پک جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث فروری اور مارچ میں کاٹن لگائی جانی چاہیے اگر مئی جون میں کاٹن کاشت کریں گے تو نہیں بچے گی۔ بارشوں کے باعث فصل تباہ ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایف پی سی سی آئی میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ بنایا ہے اس میں سات پی ایچ ڈیز کام کر رہے ہیں ان کا سربراہ یونس ڈھاگہ سابق سیکرٹری فنانس کو مقرر کیا گیا ہے جو ہر ماہ حکومت کو کسی نہ کسی اقتصادی سبجیکٹ پر اسائنمنٹ دیتے ہیں اب تک حکومت کو آٹھ پریزنٹیشن دے چکے ہیں لیکن کوئی پڑھے گا تو سمجھے گا۔ انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہے کہ پاکستان بزنس کمیونٹی کو بزنس ویزا کے مسائل درپیش ہیں۔ سارے ممالک سے نہیں لیکن جرمنی،اٹلی سمیت دیگر ممالک سے بزنس ویزا کے مسائل کا سامنا ہے۔ ایف پی سی سی آئی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جرمنی میں ایک تجارتی وفد بھجوایا لیکن یہ مسئلہ حکومت کی سطح پر حل ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا ایف پی سی سی آئی دسمبر میں ایک سیشن چیمبرز اور ایک سیشن ایسوسی ایشن کے ساتھ کرے گی اور اس کے بعد پاکستان میں اور بیرون ممالک سنگل کنٹری نمائش منعقد کریں گے۔ اس وقت تین سے چار ممالک زیر غور ہیں جہاں میڈ ان پاکستان نمائش منعقد کریں گے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ اسٹیٹ بینک مارک اپ ریٹ میں اضافہ واپس لے اور اسے سنگل ڈیجٹ پر لائے تاکہ نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ پیداواری لاگت میںپہلے ہی اضافہ ہوا ہے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ایکسپورٹ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔محمد ندیم قریشی نے کہا کہ پاکستان میں اپنی مارک اپ کی شرح علاقائی ممالک کے برابر لانا ضروری ہے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا پاکستان علاقا ئی ممالک کے ساتھ بھی اقتصادی اور تجا رتی مقابلہ نہیں کر پا ئے گا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ سب سے زیادہ قرض حکومت لیتی ہے اس لیے مارک اپ ریٹ میں اضافہ سے مالیاتی خسارہ میں اضافے سمیت دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایکسپورٹ یکدم بڑھانا ممکن نہیں درآمدات کم کی جاسکتی ہیں
Dec 19, 2022