پاکستان ’’پاپارازی‘‘ کے چنگل میں

 گلوبل ویلج :مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان میں انویسٹی گیٹو جرنلزم کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ نہ صرف کہ حیران کن ہے بلکہ شرمناک بھی ہے، اس کی آڑ میں عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں اکثر چاردیواری ہوتی ہی نہیں۔ میں نے سو سے زائد ممالک کا وزٹ کیا ہے۔ چالیس سال سے بیرون ملک خصوصی طور پر یورپین اور مغربی ممالک میں مقیم رہا ہوں۔ میں نے یہ دیکھا کہ اکثر گھروں کی چاردیواری نہیں ہوتی ،صرف اور صرف بائونڈری بنی ہوتی ہے۔ اس بائونڈری میں کوئی بھی داخل ہوتو اس کو غیرقانونی تصور کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں تو بغیر چاردیواری کے بائونڈری کے اندر داخل ہونے والے کو گولی بھی مار دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کا بہترین تحفظ مغرب میں نظر آتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا بے لگام ہو چکا ہے۔ انویسٹی گیٹو جرنلزم کے نام پر ہاتھ میں مائیک تھام کر کیمرا دوسرے کو پکڑا کر کسی بھی گھر میں داخل ہوا جاتا ہے۔ دکان ہو، فارم ہائوس ہو یا کوئی بھی پبلک مقام ہو جہاں پر چند لوگ بیٹھے ہوں ان کی تفتیش شروع کر دی جاتی ہے۔ لڑکیاں لڑکے پارک میں بیٹھیں ہیں یا کہیں بھی بیٹھیں ہیں ان سے نکاح نامے طلب کیے جاتے ہیں۔ یہ گیدرنگ سوشل ہو سکتی ہے، کوئی بزنس میٹنگ ہو سکتی ہے، سماجی رابطہ ہو سکتاہے، کوئی بھی ایکٹویٹی ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان سے تحقیق کرے ، تفتیش کرے، گاڑیوں کو رکوا کر نکاح نامہ طلب کیا جاتاہے اورگاڑی میں بیٹھے مسافروں کے منہ سونگھے جاتے ہیں۔ پبلک مقام پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے بھی اسی طرح کے سوال کیے جاتے ہیں۔ اور پھر یہ جو انویسٹی گیٹو جرنلزم کے نام پر یہ سارا کچھ کرتے ہیں ان کی طرف سے ایسے ایسے شرمناک قسم کے سوا ل کیے جاتے ہیں کہ سننے والوں کے اور دیکھنے والوں کے سر بھی شرم سے جھک جاتے ہیں۔ان سے پھر پوچھتے ہوئے کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہوں، نکاح نامہ دیکھائو، تمہیں شرم نہیں آتی اور اس کے ساتھ ساتھ گالیوں کی بوچھاڑ بھی شروع کر دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کا یہ سیگمنٹ اتنا زیادہ منہ زور ہو چکا ہے کہ پولیس کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، پولیس کو بھی بلیک میل کیا جاتا ہے۔ پولیس کے کام بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اس پر تنقید ہو سکتی ہے، یہ نظام بھی اس طرح سے کام نہیں کر رہا جس طرح ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو یہ حق دے دیا جائے کہ پولیس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے یا پولیس کو بلیک میل کرے۔
مغربی ممالک میں کوئی بھی جرم ہو اس کے لیے وکیل کے ذریعے ملزم اپنا موقف دیتا ہے اور خبر کی اشاعت اس وقت ممکن ہوتی ہے جب فردجرم عائد ہو جائے کیونکہ ہر کسی کی عزت نفس کا احترام کیا جاتا ہے۔اگر کسی پر الزام لگتا ہے اور وہ الزام کل جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے اس سے پہلے وہ خبر آ جائے تو اس بندے کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح سے پاکستان میں دیکھ لیجیے کہ یہ جو ہاتھوں میں مائیک لے کر دوسروں کے منہ میں گھسیڑ دیتے ہیں، اگر کسی گاڑی کے کاغذات چیک کیے جا رہے ہوں تو اس کی یہ لوگ وہاں پر موجود ہونے کی وجہ سے ویڈیو بنا کر وائرل کر دیتے ہیں۔اس بندے کے بارے میں عمومی رائے معاشرے میں کیا ہو گی اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لوگ اس کو ٹیکس چور کہہ سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے کسی لڑکے لڑکی کی بے شک وہ میاں بیوی ہیں ، یا بہن بھائی ہیں ان کو پولیس کی طرف سے روکا جاتا ہے تو یہ انویسٹی گیٹو جرنلسٹ جن کو میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل جعلی ہیں، ان کے پاس کیا ڈپلومہ ہے، کیا ڈگری ہے۔ کیا ثبوت ہے کہ یہ واقعی انویسٹی گیٹو جنرلسٹ ہیں۔ وہ ان کی تصویریں شائع کر دیتے ہیں تو اس سے پھر آپ اندازہ کریں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا اگر وہ بہن بھائی ہیں یا میاں بیوی ہیں معاشرے میں ان کو کس نظر سے دیکھا جائے گا۔ 
ایک فارم ہائوس پر ایسی ہی گیدرنگ ہو رہی تھی وہاں پر پولیس نے میڈیا کو ساتھ لے جا کرمیڈیا سے مطلب ایسے یوٹیوبر کو ساتھ لے جا کر چھاپہ مار دیا۔ا ن کی تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہو گئیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ کسی کمپنی کے ملازم تھے جو وہاں پر گیٹ تو گیدر کر رہے تھے لیکن جو میڈیا میں خبریں آئیں وہ نیگیٹو قسم کی آئیں۔ اس سے یہ اندازہ کر لیا جائے کہ وہ لڑکیاں جن کی ابھی شادی ہونی ہے ،ایسی ویڈیوز سامنے آتی ہیں تو ان کے رشتوں کا کیا بنے گا۔ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کریں اور کسی بھی ایسے انویسٹی گیٹو جنرلسٹ کو جو سوشل میڈیاچلا رہا ہے، اس نے اگر تھانے میں جا کر کوئی تحقیق کرنی ہے تو باقاعدہ حکومت، پولیس والے کوارڈنیٹر مقرر کریں اس کے ذریعے ہی جو اس نے بات کرنی ہے، جو پوچھنا ہے ،وہ پوچھ لے۔ کسی ملزم کے ساتھ کسی بھی ایسے میڈیا والے کو ملنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔لاہور کی طرف سے روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ہائی کورٹ کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے ملزموں کے ساتھ میڈیا کو بات کرنے سے روک دیا گیا ہے نہ ان سے بات کی جا سکے گی نہ تصویر بنائی جا سکے گی۔
قارئین! یورپ اور ویسٹرن مغربی ممالک میں تقریباًتین عشرے پہلے تک ’’پاپارازی‘‘فوٹوگرافرز قسم کی ایک کھیپ پیدا ہوئی تھی جنہوں نے مشہور ایکٹرزاور ایکٹرس ،سیاستدان اور معاشرے کے اعلیٰ مقام پر فائز یا دوسرے لفظوں میں سیلبرٹیز کی چھپ کر تصویریں بنانی اور ’’پاپارازی‘‘ قسم کے اخبارات میں شائع کروانی شروع کر دیں۔جس سے ان اخبارات کو تو کافی پڑھنے اور دیکھنے والے مل گئے لیکن معاشرہ سماجی انحطاط کی طرف بڑھنے لگا۔قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ آنجہانی پرنسز ڈیانا بھی اسی پاپا رازی گروپ سے بہت تنگ تھیںحتیٰ کہ موت سے قبل جب ان کو حادثہ پیش آیا تو اس وقت بھی وہ پاپا رازی فوٹوگرافرز سے بچنے کی کوشش میں لگی ہوئیں تھیں۔اسی طرح ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے مشہور ستاروں کی طلاقیں پاپارازی فوٹوگرافرز کی وجہ سے ہوئیں۔جب یہ پاپا رازی جرنلسٹ اپنی حدود سے آگے بڑھے تو انہیں دنیا بھر میں بین کر دیا گیا۔لیکن پاکستانی عوام پچھلے بیس سال سے ان پاپارازی جرنلسٹ اور اینکرز سے بہت پریشان ہیں۔کوئی بھی شخص ایک فٹ کا مائیک اور ایک کیمرے والا موبائل یا کیمرا پکڑ کر کسی بھی گھر ،کسی بھی دفتر اور کسی بھی فیکٹری یا کارخانے میں دو تین ساتھیوں کے ساتھ گھس جاتے ہیں ، جس سے نہ صرف وہ چادر اور چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرتے ہیں ،چلو یہی مانا کہ وہ ایک غیرقانونی کام کو بے نقاب کرنے کے لیے غیرقانونی طریقہ واردات اپناتے ہیں۔ابھی گذشتہ روز گوجرانوالہ کے قریب ایک بچے کا بہیمانہ قتل ہوا ،پولیس نے ایف آئی آرکے اندراج کے بعد ایک مقتول کی چچی ملزمہ اور اس کے متوقع آشنا کو گرفتار کر لیااور پھر پورے پاکستان نے دیکھا کہ ہر چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھا اور ان متعدد چینلز کی فی میل اور میل اینکرز کی ملزم اور ملزمہ سے انتہائی بداخلاقی سے سوالات کی بوچھاڑ کر رہے ہیںاور اس دوران نہ صرف ملزمان کو ڈانٹا جا رہا ہے بلکہ انہیں کئی منٹوں پر محیط معاشرتی لیکچر بھی سنایا جا رہا ہے۔اور متعلقہ تھانے کے پولیس آفیسرزساتھ کھڑے محض فوٹو بنوانے میں مصروف ہیں۔تو قارئین کیا متعلقہ تھانے کے انویسٹی گیشن آفیسر یا ایس ایچ او کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ متوقع ملزمان کو جو ابھی مجرم ثابت نہیں ہوئے میڈیا کے سامنے پیش کرکے تضحیک اور تمسخر کا ذریعہ بنائیں؟میری پاکستان کے اربابِ اختیار اور خصوصاً آئی جی پنجاب اور چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ کوئی ایسا ضابطہ اخلاق یا قانون میں تبدیلی کرکے کچھ ایسی دفعات شامل کریں کہ جس سے زیرتفتیش ملزمان سے ہر قسم کے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو دور رکھا جاسکے تاکہ صرف اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کے لیے ایسے سوشل میڈیا اور نیم خواندہ صحافیوں کا راستہ روکا جا سکے اور بگڑے ہوئے معاشرے میں اس برائی کو کسی حد تک روکا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن