تحریر:غلام شبیر عاصم
اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے رویے ، رسمیں ، کیفیات ، حرکات وسکنات ، فلمیں اور ڈرامے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔حتٰی کہ بچے اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کورے کاغذ جیسے اپنے دل و دماغ پر ان کیفیات اور عوامل کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں۔اس عمر میں سب دیکھا سنا تقریبا?? تمام عمر انسان کو یاد رہتا ہے۔بڑوں کی باتیں اور اچھے برے رویے بچوں کے ذہنوں پر نقش ہوجاتے ہیں۔آپ یہاں سے اندازہ کرلیں کہ بچوں کا "چور سپاہی " اور "گْڈے گْڈی "کی شادی بیاہ کا کھیل اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے،کہ وہ آس پاس کے رویوں،رسموں اور لوگوں کی سرگرمیوں کو کس قدر قبول کرتے ہیں۔وہ اپنے ارد گرد میں ان افعال کو دیکھتے ہیں تو پھر انہیں اپنے کھیل یا بچگانہ سرگرمیوں کا حصہ بنا لیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے کورے کاغذ جیسے ذہن پر جو بھی چاہیں تحریر کیا جا سکتا ہے۔اور پھر اسی اچھے برے لکھے ہوئے کے عملی نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں اور انہی افعال سے پھر معاشرہ کی اچھی یا بری شکل بنتی ہے۔یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں بچے پر جو رنگ چڑھ گیا سو چڑھ گیا۔پھر اکثر بچے اپنے سن بلوغت میں مستقبل کی راہیں اسی رنگ میں رہ کر متعین کرتے ہیں۔ہم نے اپنے زمانہ طالب علمی میں دیکھا کہ کئی بچے جو بڑے ذہین فطین تھے،مگر آوارہ بچوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے باعث ان کی وہ صلاحیتیں ضائع ہوگئیں۔ان کا وہ ٹیلنٹ ان کے اندر ہی دب کے رہ گیا۔ان کے اندر جو ذہانت فطانت کی چمک تھی اس پر آوارگی کی ایسی کْہر چڑھ گئی کہ وہ گویا کسی اندھیری غار میں گم ہوکے رہ گئے ہیں۔ماضی کے وہ بچے آج کے بالغ شہری اب جدید دور کے تقاضوں سے ڈرے ہوئے کہیں چھپ کر کونے کھدرے میں جی رہے ہیں۔اگر ان کے مشاہدات میں اچھے اور تعمیری عوامل ہوتے،سلجھے ہوئے اور زیرک لڑکوں کے ساتھ دوستیاں رکھتے تو شاید آج فلک پر روشن ستارے بن کر چمک رہے ہوتے۔اور معاشرے میں فکر و آگہی کی کرنیں بکھیر رہے ہوتے۔تعمیرِ مْلک و ملت میں ان کا بھی حصہ شمار کیا جاتا۔مگر ان کی غلط سلط دوستیوں اور ایسے مشاہدات کے اثرات نے انہیں تباہ کردیا ہے۔وہ ان مردہ کونپلوں کی طرح بن کے رہ گئے ہیں جو شجر بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ اور کئی انسان ان کے ممکنہ سائے اور ہوا کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ہماری تربیت اور فکری تعمیر و ترقی یا تباہی میں ہمارے آس پاس کے عوامل کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔کسی بھی معاشرہ میں جو بچے ہوتے ہیں وہ ایسی کھیپ ہوتے ہیں جو آنے والے کل میں اپنے معاشرہ کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔تو ان ساری باتوں کے تناظر میں یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ بچوں کے سامنے اچھے،مثبت اور تعمیری عوامل اور حرکات و سکنات رکھنے چاہئیں۔کسی بھی ملک کے سیاستدان،مقتدر لوگ ، بیورو کریٹس اور ہیرو اپنے کردار اور رویوں کے ذریعے ملک و معاشرہ میں جو اثرات چھوڑتے ہیں، وہ عوام الناس کے سامنے بہت بڑے پروجیکٹر پر چلنے والی کسی فلم کی طرح ہوتی ہے۔کیونکہ بیورو کریٹس اور سیاستدان ایک بلند و بالا اسٹیج پر اپنا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔عوام خاص کر سن بلوغت کو چھونے والے نوجوان انہیں ڈرامہ کے ناظرین کی طرح بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔بعض کامیاب ڈراموں کے خاص کردار عوام میں بدرجہ اتم مشہور ہوجاتے ہیں۔لوگوں کے رویوں اور حرکات وسکنات پر جادو کی طرح اثر کر جاتے ہیں۔ٹیلی ویڑن کی سکرین سے ڈرامہ غائب ہوجانے کے بعد بھی برسوں وہ کردار معاشرہ میں اپنا اثر برقرار رکھتے ہیں۔لوگ کرداروں کے نام پر ایک دوسرے کے نام رکھ دیتے ہیں۔دیکھا جائے تو یہ ملک و معاشرہ بھی ایک اسٹیج ہے،ٹی وی سکرین ہے جس پر اچھے برے کردار چل رہے ہیں۔ ہر آنکھ اور ہر ذہن اپنے پسندیدہ کردار کو دیکھنے کے لئے بیتاب ہے۔سیاسی پارٹیوں میں ووٹرز سپورٹرز اپنے قائدین کے لئیے بھی کچھ اس طرح ہی کے جذبات رکھتے ہیں۔اس ساری گفتگو کے تناظر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے سیاسی لوگ اور بیوروکریٹس پردہ سکرین پر تعمیری اور مثبت کردار ادا کریں۔پردہ سکرین پر ان کی حرکات نوشتہ دیوار بلکہ مستقبل کے لئے تاریخ کا حصہ بنتی ہیں۔انہیں چاہئیے کہ اپنے طرز سیاست کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئیے ذاتی مفادات،اقربا پروری اور ریاستی وسائل سے اپنے پیٹ بھرنے جیسے عوامل سے خود کو پاک رکھیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر دور حکومت میں اسمبلیوں کے اندر ملک کے چنیدہ لوگ دشنام طرازی اور بدتہذیبی کے ایسے مناظر پیش کرتے ہیں کہ عوام اپنے آپ کو کوستے اور اندر ہی اندر کڑھتے ہیں کہ جاہلوں کو تاج پہنا کر تخت پر کیوں بٹھا دیا۔جو ملک و قوم کی بھلائی کے لئے قانون سازی کرنے کے بجائے اپنی بھوک مٹانے کے لئے مردار پر چیلوں ، گدھوں اور کووں کی طرح آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کو چاہئیے کہ اپنا طرز سیاست شفاف بنائیں۔تاکہ چوکوں اور بازاروں میں انکے پتلے جلانے کے بجائے چبوتروں پر ان کے مجسمے بنا کر نصب کئے جائیں۔ نئی نسل ان مجسموں کو دیکھ کر خود کو اس مقام تک لے جانے کے لئے تدبیر و تعبیر کی راہ پر گامزن ہونے کے لئیے تیار ہو جائے ، نہ کہ چبوتروں تک کے سفر کے بجائے " کبوتروں " کے پیچھے ہلکان ہوتی پھرے۔جوے اور منشیات کی دلدل میں دھنس پھنس کے رہ جائے۔۔