لاتوں کے بھوت، باتوں کے کھلاڑی!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان  :تجا ہلِ عا رفانہ 
ورلڈ کپ ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم پرتھ ٹیسٹ میں بھی ناکامیاں سمیٹتی رہی۔ ورلڈ کپ میں ہارنے کے بعد بھی کر کڑزنے کروڑوں کمائے۔ دنیا کا انتہائی فضول کھیل جس کا صحیح تمسخر ہٹلر نے اڑایا تھا۔ ایکبار جب اُس نے پو چھا کہ چھ دن سے مسلسل کر کٹ چل رہا ہے۔ اسکا کیا رزلٹ برآمد ہوا تو بتانے والے نے بتا یا کہ میچ تو Draw ہو گیا ۔ ایڈولف ہٹلر نے اُسی وقت کہا کہ ایسے وا ہیات کھیل کا کیا فائدہ جو قوم کو سست الوجود اور نکمّا کر دے۔جس کھیل کا خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلے۔ چھ دن میچ کھیل کر بھی برابر ہو گیا تو کھیلنے کا کیا فائدہ ہوا۔ آج سے جرمنی میں کرکٹ بین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، فرانس، جرمنی، چین جاپان روس اور تمام با شعور اور قابلِ عمل قوموں میں کرکٹ نہ پسند کیاجاتا اور نہ کھیلا جاتا۔ کرکٹ حقیقت میں ایک بیکار کھیل ہے۔ زیادہ تر اُنھی ممالک میںکھیلا جاتا ہے جہاںلوگ تساہل پسند، کام چوراور ہڈ حرام ہوتے ہیں۔ اب خدا کے لیے آپ لوگ انگلینڈ یا انگریزوں کا حوالہ نہ دینے بیٹھ جائیں۔ انگریزوں نے بھی زندگی بھر حماقتوں کی داستا نیں رقم کی ہیں۔ اپنے اتنے اچھے، ٹھنڈے، پر سکون اور بااصول ملک میں امن چین، صحت تعلیم اور قانون والی زندگی چھوڑ کر گرم علاقوںمیں جاکر حکمرانی کرنے، وہاں کے لوگوں کی نفرتیں سمیٹنے، گا لیاں ،بد دعائیں کھانے اور انگریزی زبان کی تحقیر و تمسخر کے علاوہ انہوں نے کیا کارنامہ سر انجام دیا ۔ نو آبادیاتی نظام قائم کرنے میں اپنی انرجی ضا ئع کرتے رہے۔ انگریزی زبان کے ابلاغ کے چکر میں انگریزی زبان کی وہ حالت کر بیٹھے ہیں کہ اصل انگریزی تو تقریباّ معدوم ہو گئی ہے۔ ہر ملک اپنی سمجھ بوجھ ، آسانی اور مقامی لسا نیات کے حساب سے انگریزی توڑ مروڑ کر غلط تلفظ اور ملغوبہ بنا کر بولتا ہے۔ کرکٹ انگریزوں کی ایجاد ہے۔ آکسفورڈ اور کیمرج سے پڑھ کر آنیوالوں نے اپنے اپنے ملک میں کیا غدر مچا یاہے۔ اُنکی تعلیمی استعداد، قا بلیت، فہم و فراست اور جنر ل نالج کسی بھی ذہین پاکستانی فرسٹ ائیر کے بچے کے برابر بھی نہیں ہے۔ آکسفورڈ اور کیمرج یو نیورسٹی ہماری پنجاب یو نیورسٹی کے لیول کو نہیں چُھو سکتی۔محض منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنا ذہانت یا قا بلیت نہیں ہے۔ قابلیت علم کی ترسیل و تفہیم، اخلاقیات، تہذیب، شا ئستگی اور تحقیق و تنقید میں ہے۔ بد قسمتی سے نوے فیصد پاکستانی انگریزوں کے پرستار ، نقال، پیروکار اور غلام ہیں۔ پہلے اس خطے کے لوگ انگریزوں کے عا شق دیوانے اور غلام تھے لیکن تقریباّ پُون صدی سے اس خطے کے لوگ امریکیوں کے پیروکار اور غلام بھی بن گئے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگوں کی نہ سوچ اپنی ہے نہ فیصلے اپنے ہیں اور نہ زندگی اپنی ہے۔ ہم نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں نہ ہماری کو ئی رائے ہوتی اور فیصلہ سازی میں تو ہم پست ترین درجہ رکھتے ہیں۔  75سالوںمیں کشمیر تو کیا آزا دکراتے۔ اُلٹاپاکستان کے کئی علاقے گنوا بیٹھے ہیں۔ ہاں کشمیر پر بیان بازیاں سُن لیں۔ ایسے ایسے لطا ئف سُننے کو ملتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ابھی نگراں وزیر اعظم کا کشمیر پر بیان سُن کر ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے اور فلسطین پر قائد اعظم کے حوالے سے بیان پڑھ کر افسوس ہوا۔ قوم کے حوالے سے ہمارے حکمران اور سیاستدان جس قسم کے بیانات دا غتے ہیں۔ اصولاّ تو ایسے بیانات پر سزابنتی ہے۔یہ ایک ریکارڈ ہے کہ پچھتر سالوں میں دو تین حکمرانوں کے سوا ہر حکمران نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پاکستان کو کرپشن کی دلدل میں دھکیلا ہے۔ایک بھی ایساسیاستدان موجود نہیں جس پر آپ انگلی رکھ کر کہہ سکیں کہ یہ ملک و قوم سے مُخلص ہے۔ اسے پاکستان کی عزت، حرمت، استحکام، خو شحالی عزیز ہے۔ ہر سیاستدان اقتدار کا مارا ہے۔ ہر ایک پاکستان کو لوٹ کر کھانا چا ہتا ہے۔ اور پھر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم نے سیاست پر ریا ست کو ترجیح دی ہے۔ اپنی سیاست قربان کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار اورسیاست دولت طا قت ہی انکا دین ایمان ہے جس کی خا طر یہ اپنی عا قبت خراب کر چکے ہیں۔ ان سب سیاستدانوں کی عمریں ساٹھ سے اسّی سال ہیں یعنی پاکستان میں ساٹھ سا ل اوسطاًعمر مانی جاتی ہے یعنی یہ سب اپنی عمریں گزار کر اپنی قبروں کے بالکل قریب بیٹھے ہیں مگر اقتدار اور دولت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ الیکشن قریب ہیں اور ہمارے کان انکے جھوٹ سُن سُن کر پک جا ئیں گے۔ دل دماغ انکی ڈرامہ بازیوں سے عاجز آ جائیں گے اوراعصاب انکی مکاریوں، عیاریوں، ریا کاریوں سے جُھنجھنا اٹھیں گے۔ نگران وزیر اعظم سیر سپاٹے کے انتہائی شوقین ہیں۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن نگران وزیر اعظم ہوں، مہمان وزیر اعظم ہو یا مستقل وزیر اعظم ہوں۔ انکی عیاشیاں ختم نہیں ہوتیں۔ اُ س پر یہ غریب عوام کا درد رکھتے ہیں۔ انھیں مہنگائی کی وجہ سے نیندنہیں آتی مگر غیر ملکی دُورے، اللّے تلّلے اور عیاشیاں پروٹوکول ختم نہیں ہوتے۔ کہتے ہیںجیسے عوام ہوں ویسے حکمران ہوتے ہیں لیکن یہاں تو جیسے کرپٹ حکمران آتے رہے ہیں، ویسے ہی کرپٹ عوام ہیں۔ عوا م میں بھی کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ اگر آسمان کے سارے فرشتے آ جائیںتو کان پکڑ کر بھاگ جائیں۔ عوام کا سب سے محبوب مشغلہ باتیں ملانا ہے۔ آپ کسی بھی طبقہء فکر کے لوگوں سے مل لیں۔ ایسی ایسی باتیں کر یں گے کہ فرشتوں کا گمان ہو گا لیکن عملی طور پر سب شیطان کے راستے پر چلتے پا ئے جا ئیں گے۔ پاکستانی قوم باتوں کی کھلاڑی ہے۔ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جائے لیکن عملی طور پر دوغلے ہیں۔ منافقت کی مثا لیںہمارے ہاں اتنی زیادہ ہیں کہ لکھتے لکھتے سمندر سے سیاہی لیں تووہ بھی کم پڑجائے گی۔ کام اورمحنت کے نام پر پوری قوم سوگ میں مُبتلا ہو جائے گی بلکہ پاکستانی قوم کے متعلق مشہور ہے کہ کام کے نام پرا نھیں موت پڑتی ہے۔ جس کی جو ذمہ داری یا کام ہو تا ہے۔ وہ کبھی اسے نہیں کرتا۔ ہماری زندگی میں ٹینشن اور ڈیپرشن کی بڑی وجہ یہی کام چوری اور ہڈ حرامی ہے۔ کام کے نام پر پو ری قوم اونگھتی ہے۔ پچا س فیصد قوم تو لاتوں کی بھوت ہے۔ جب تک انھیں بُرا بھلا، گا لم گلوچ اور جوتے ٹھڈے نہ پڑیں۔۔۔ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ خود ہی سوچیں کہ ایسی قومیں جن کے حکمران کرپٹ اور عوام بے حس، کام چور، چکرباز ہوں۔ وہ ملک اور قوم کیسے ترقی کر سکتے ہیں۔ معلوم نہیں ہماری قوم کو کب ہوش آئیگا۔ یہ قوم کب جاگے گی؟؟؟

ای پیپر دی نیشن