عورت اور دوہرے ثقافتی معیار

ایک بار میں کچھ دوستوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔ یہ سفر لوکل بس کا تھا اور ایک گاؤں کی طرف تھا۔ ان دنوں میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی تھی اور اسی سلسلے میں دیہی علاقے کا وزٹ تھا۔ میں نے دیہات دیکھے بھی ہیں اور ان میں رہی بھی ہوں لیکن دوستوں کا پہلا تجربہ تھا۔ ایک خاتون غالباً پچاس سال کی ہوں گی۔ انھوں نے تہہ بند پہنا ہوا تھا، جسے دھوتی بھی کہتے ہیں۔ تہہ بند مرد پہنے یا عورت پنڈلیاں اس میں سے جھانکتی رہتی ہیں۔ ان کے پاس حقہ بھی تھا۔  ہم ابھی انھیں دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ ہماری ایک دوست سے مخاطب ہوئیں جس نے ٹراؤزر ذرا ٹخنے سے اوپر رکھا ہوا تھا، ’دھیے، ایہہ کیڑا فیشن اے، نری بے حیائی اے‘۔ یعنی عورت کے ٹخنے نظر نہیں آنے چاہئیں۔ میری دوست جو کہ کافی بولڈ تھی، کہنے لگی، ’اماں جی، تسی دھوتی پا کے کیہڑا ثواب کما رہے ہو! آپ کے ٹخنے کیا پنڈلیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ ابھی میں نے سگریٹ لگائی ہوتی تو آپ مجھے بدکردار کہتیں جبکہ خود حقہ پی رہی ہیں‘۔ سب ہنسنے لگے اور اماں جی کہنے لگیں، ’پتر، بھلائی دا زمانہ ای نئیں رہیا‘۔ مجھے اس وقت یہ احساس ہوا کہ سب کے اپنے پیمانے ہیں دوسروں کو پرکھنے کے۔ دیہات میں خواتین کا حقہ پینا ایک معمول کی بات ہو سکتی ہے لیکن ایک لڑکی کے ہاتھ میں سگریٹ بے حیائی کی بات بھی ہو سکتی ہے۔ بے حیائی کے اپنے پیمانے ہیں۔ سگریٹ پینا مرد کے لیے بھی بے حیائی ہی ہونی چاہیے۔ اگر یہ بے حیائی ہے تو۔ اسی طرح دیہاتی عورتوں کے تہہ بند سے جھانکتی اس کی پنڈلیاں تو بے حیائی نہیں ہیں مگر شہری لڑکی کا ٹراؤزر ٹخنوں سے ذرا اونچا ہو گیا تو بے حیائی ہو گئی۔ 
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ ان دنوں جب میں این جی او کے لیے کام کر رہی تھی گاڑی تو تھی نہیں میرے پاس۔ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ ہم لوکل ویگن یا بس میں سفر کرتے تھے۔ہم نے گاؤں جانا تھا۔ آخری وین جا رہی تھی۔ ہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کو ترجیح دے رہی تھیں۔ وہاں دو مرد براجمان تھے۔ پیچھے ایک ہی سیٹ بچی تھی جس پر مرد تھے۔ میں نے بیٹھنے سے انکار کیا تو ایک خاتون میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی کہ ’بیٹھ جا بھرا ای اے تیرا، ویکھ میں وی تے بیٹھی آں‘۔ وہاں سب مردوں میں وہ اکیلی جانباز اور دلیر خاتون آرام سے اجنبی بھائیوں میں بیٹھی تھیں۔ میں نے کہا، آپ کا دل مانتا ہے تو شوق سے بیٹھیے اور ہم نے نہ جانا ہی بہتر سمجھا۔
پھر جب میں نے خود ایک سکول ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے میں کھولا تو مجھے وہاں دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اکثر ادھیڑ عمر خواتین اور مرد چارپائیوں پر ساتھ ساتھ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوتے تھے جو آپس میں عزیز بھی نہیں ہوتے تھے۔ عام طور پر یہ چارپائیاں گھروں کے باہر بچھی ہوتی تھیں۔ خواتین علاقے کے سب لوگوں کو جانتی تھیں اور مرد بھی علاقے کی سب خواتین سے بخوبی واقف تھے۔ وہاں راستے میں روک کر کوئی بھی خاتون کسی بھی ہمسایے سے آزادی سے اور بآسانی گفتگو کر سکتی تھی۔ کسی نے اس کے کردار پر کبھی شک نہیں کیا کیونکہ یہ سب رویے وہاں کے ماحول میں ایک عام سی بات تھے۔ کھیتوں میں مردوں کے ساتھ کٹائی اور فصل کی لگائی مل جل کر کام ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ شہر کی ایک ماڈرن لڑکی کرے تو اچانک سے سب کی رائے تبدیل ہو جائے گی۔ 
اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ دراصل ہمارے ہاں ماڈرن ہونے کا مطلب ہی بے حیائی سمجھ لیا گیا ہے۔ وہ تمام رویے جو دیہات کا معمول ہیں وہ شہر کی ماڈرن لڑکی کرتی ہے تو اس کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ یہ میرا عمومی مشاہدہ ہے۔ دیہات میں میں نے جتنی آزادی دیکھی ہے، پڑھے لکھے سلجھے ہوئے لوگوں میں اس آزادی کی کمی ہے۔ یہاں شہروں میں والدین اپنی بیٹیوں کو کسی دوست یا محلے دار کے گھر رات رکنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتے لیکن دیہات میں بچیوں کو اس حوالے سے اتنی پابندی کا سامنا نہیں۔ کہیں کچھ پابندیاں بھی ہیں لیکن زیادہ تر خواتین دوستوں ، ہمسائیوں کی طرف بآسانی آتی جاتی ہیں۔ لوگوں کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اسی طرح ہیں جیسے اپنے عزیزوں کے ساتھ ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود دیہاتی لوگوں کی سوچ ماڈرن اور شہری خواتین کے بارے میں بالکل اچھی نہیں ہے۔ اس کا خود تنہا سفر کرنا کر کے کالج جانا یا نوکری پر جانا پسند نہیں۔ عموما دیہاتی لوگ پڑھی لکھی باشعور لڑکی کو بطور بہو بہت کم قبول کرتے ہیں۔
میری ایک دوست کی شادی بظاہر شہری اور پڑھے لکھے لوگوں میں ہوئی۔ چونکہ دوست باشعور ہے،جاب کرتی ہے تو اسے ساس سے ہر وقت یہ ہی سننے کو ملتا ہے کہ بہو کم پڑھی لکھی لانی چاہیے۔ وہ اس کے سامنے اپنے عزیزوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ بہو کم عمر اور کم پڑھی لکھی ہونی چاہیے۔ رعب میں رہتی ہے۔ اکیلے آنے جانے والی لڑکیاں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ ہم خود جیسے بھی ہوں، جو مرضی کریں لیکن دوسرے کے حوالے سے وہ سب قبول نہیں کرتے۔ ہمارا دوہرا معیار ہے۔ ہم اپنے لیے اور پیمانے اور دوسروں کے لیے اور پیمانے مقرر کرتے ہیں۔ ہم کبھی دوسرے کے لیے وہ پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے کرتے ہیں۔ ہم خود کو اور دوسروں کو الگ الگ معیارات پر پرکھتے ہیں۔ یہ طرز منافقت اور جہالت ایک طرح سے ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔ہمیں دوسروں کو بحیثیت انسان اور اس کی انفرادی حیثیت میں ایسے ہی قبول کرنا چاہیے جیسا وہ ہے۔ اس پر اپنی سوچ کی چھاپ نہیں لگانی چاہیے اور نہ ہی منافقانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن