کچھ بھی ہوجائے ہم اگر مگر سے باہر نہیں آتے۔ کچھ انہونی کے ایک دو فیصد امکانات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اٹھانوے ،ننانوے فیصد کو دیکھیں،خواہ مخوا کی غیر یقینی پھیلائی جاتی رہی۔سب سے بڑی اگر مگر الیکشن کو لے کر تھی کہ ہوں گے ؟نہیں ہوں گے؟ کب ہوں گے؟۔ پہلے بھی کہا تھا الیکشن وقت پر ہی ہوں گے۔جو دو ڈھائی ماہ کی تاخیر ہوئی وہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے تھی جو نئی مردم شماری کے بعد قانونی طور پر ناگزیر ہوچکی تھیں اور اگر نہ ہوتیں تو قانونی مسائل اور سیاسی تنازعات کھڑے ہو جاتے۔ اب تو سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ الیکشن میں تاخیر، سوچنا بھی ناں، لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ تاخیر کی باتیں آئی کہاں سے تھیں۔ نہ کبھی الیکشن کمشن نے کوئی بات کی نہ کسی اور ذمہ دار ادارے یا شخصیت نے۔ سیاسی جماعتیں بھی وقت پر انتخابات کی بات کرتی رہیں لیکن اس بے نامی سی اگر مگر سے پیدا ہونیوالی غیر یقینی نے انجان سا ابہام پیدا کئے رکھا جس کا شکار سیاسی جماعتیں رہیں اور امیدوار بھی۔ بحرحال اب تو شیڈول بھی آگیا ہے اور مزید کچھ باعث تاخیر نہیں دکھائی دے رہا تو اب شروع ہوگئی ہے الیکشن کی سیاست،اقتدار اور کرسی کی جنگ ،دکانیں کھل گئی ہیں اور کچھ کھل رہی ہیں ،کوئی مال بیچ رہا ہے اور کوئی بیچنے کیلئے مال اپنی دکان میں سجانے میں مصروف ہے۔ لیکن ان سیاسی دکانوں پر دکاندار اپنے مال کی اچھائیاں بتانے کی بجائے دوسروں کے مال کی برائیاں بتا کر اپنا مال بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی جلسے جہاں اپنے مال کی تشہیر کی جاتی ہے وہاں صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ دوسرے نے جو مال بیچا وہ تو ٹھیک نہیں تھا اس سے آپ کا نقصان ہوا ،وہ آئیگا تو پھر وہی سب کرے گا لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کے اپنے پاس جو سامان ہے وہ کیا دوسرے سے مختلف ہے؟۔
ہماری ضروریات کے مطابق ہے؟ دنیا بھر میں الیکشنز منشور پر لڑے جاتے ہیں سیاسی جماعتیں بڑی محنت سے اپنے منشور تیار کرتی ہیں، عوام کے سامنے رکھتی ہیں، عوام کو جس کا منشور بہتر لگتا ہے اسے ووٹ دیتے ہیں اور پھر اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ جماعت اپنے منشور پر کتنا عمل کرتی ہے اور اگلے انتخابات میں اس سیاسی جماعت سے اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے کا ووٹ کے ذریعے حساب لیتے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے اور یہی بہترین سیاست۔ عوام کو سمجھانے سے زیادہ انہیں سمجھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ان کی ضروریات کیا ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی یہ سب سمجھنے کو تیار نہیں۔ جو سیاسی دکاندار انہیں بتاتا ہے کہ دوسرے کا مال ٹھیک نہیں وہ اسی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بالکل نہیں سوچتے کہ جس دکان پر آئے ہیں کیا اس کا مال بہتر ہے، نیا ہے، دوسرے سے مختلف ہے؟۔ ویسے تو ہم بیس تیس روپے کی چیز خریدنے سے پہلے بھی اس کی تمام خصوصیات معلوم کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ زیادہ پرانی تو نہیں،خراب تو نہیں ،پھر سستی چیز پر بھی بھاؤ تاؤ کرتے ہیں کہ کہیں مہنگی نہ خرید لیں لیکن سیاسی دکانوں پر آکر ہم دکان دار کی باتیں بڑی آسانی سے مان لیتے ہیں۔ اس کے مال کی کوالٹی چیک کرتے ہیں نہ ایکسپائری ، بعد میں احساس ہوتا ہے کہ اس کا مال تو ٹھیک نہیں نکلا۔ پھر پہلے والی دکان پر واپس پہنچ جاتے ہیں ،یہی چلتا آرہا ہے ہر بار وہی غلطی اور پھر وہی پانچ سال کا رونا دھونا۔ امیدوار اگر کھیل کھیل کر کھلاڑی بن گئے ہیں تو ووٹرز کو بھی تو اناڑی نہیں رہنا چاہیے۔
بھائی اب اگر سیاسی دکاندار آپ کو وہی مال بار بار بیچ کر تجربہ کار ہوچکے ہیں تو آپ کے پاس بھی تو سبھی دکانوں سے مال خریدنے کا تجربہ موجود ہے۔ دیکھ سن لیں کس نے ہمیں بہتر مال دیا اور کس نے دکھایا کچھ اور دیا کچھ اور،تو اب یقین کرلیں کہ الیکشن ہورہے ہیں ، سوچ لیں کہ اس بار کرنا کیا ہے، سمجھ لیں کہ پھر یہ دکانیں پانچ سال بعد کھلیں گی اور سمجھا دیں کہ امیدوار کھلاڑی ہیں تو ووٹرز بھی اناڑی نہیں رہے۔
٭…٭…٭