سنسر کی ڈیوٹی بہت دلچسپ تھی۔ ہمیں ساری ڈاک سنسر کرنی ہوتی اور یہ بڑا دلچسپ مشغلہ تھا۔بعض اوقات لوگوں کے ایک دوسرے کیلئے دکھ بھرے حالات پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے عشقیہ خطوط بھی بہت ہی دلچسپ ہوتے تھے۔ بعض اوقات کچھ سیاسی نوعیت کے خطوط بھی ملتے۔ سب سے تکلیف دہ چیز نوجوان بنگالی لڑکوں کا ہندوستانی لڑکیوں اور خصوصاً کلکتہ فلم ایکٹرسوں سے رابطہ تھا۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے خطوط ہوتے تھے۔ بعض دل پھینک قسم کے نوجوان تحفے یا لفافے میں کرنسی نوٹ بند کر کے بھیجتے۔ کئی دفعہ خون سے لکھے ہوئے خط بھی ہوتے۔ بعض اوقات ان خطوط کے جوابات بھی آتے۔ ہمارے نوجوانوں کا یوں وسیع پیمانے پر ہندوستانی حسیناؤں کی زلفوں کا اسیر ہونا واقعی باعث تشویش تھا۔ یہ نوجوان ان حسیناؤں کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ ڈھا کہ میں بڑی بڑی دکانیں اکثر ہندوؤں کی تھیں۔ نواب پور بازار میں ایک ہندو کی مٹھائی کی دکان بہت مشہور تھی۔ جہاں کی چم چم اور رس ملائی جسے وہ’’ رشوملائی ‘‘کہتے تھے، بہت مشہور تھیں۔ ہندو وہاں بہت با اثر تھے۔ کاروبار اور انتظامی مشینری پر چھائے ہوئے تھے۔ تدریسی شعبے میں بھی بہت ہندو تھے۔
یہاں تک سننے میں آیا کہ راجشاہی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کا سر براہ بھی ہندو تھا۔ فوجدار ہاٹ کیڈٹ کالج کے پرچے مارک کرنے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوئی کہ تیس فیصد طلبا ہندو تھے۔ ہم جب بنگالی آفیسرز کے ساتھ حالات حاضرہ پر بحث کرتے تو اختتام اسی بات پر ہوتا کہ مشرقی پاکستان زیادہ سے زیادہ دس سال مغربی پاکستان کے ساتھ رہے گا۔ لیکن یہ پیشین گوئی چھ سال بعد ہی پوری ہوگئی۔
وہاں یوں تو بہت سے بنگالی دوست بنے لیکن انکم ٹیکس کے اسسٹنٹ کمشنر مجیب الرحمن اور میرے سینئر ساتھی کیپٹن عبد الکریم سے دلی لگاؤ ہوا۔ کریم صاحب ریٹائرڈ فوجی آفیسر تھے جنہیں جنگ کی وجہ سے دوبارہ بلا لیا گیا تھا۔ بہت عرصہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں سروس کر چکے تھے۔ بڑے خوش باش اور خوش خوراک انسان تھے۔ سارا دن کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے اور جب کھانے سے فارغ ہوتے تو لطیفے سناتے۔ خوش رہتے اور خوش رکھتے۔ برج کھیلنے کے بہت شوقین تھے۔ ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں سروس کے دوران رات کو 9 بجے کھیلنے بیٹھتے اور اکثر صبح تک کھیلتے رہتے۔ کلاس میں پڑھاتے ہوئے سو جاتے اور پھر جھاڑیں کھاتے۔
ایک دفعہ رات کو میس (Mess) میں بیٹھے کھیل رہے تھے، بیوی کے بچہ ہونے والا تھا لہٰذاملازم دوڑتا ہوا آیا کہ بیگم صاحبہ سخت تکلیف میں ہیں فوری گھر آئیں۔’’ ابھی آتا ہوں‘‘کہہ کر نوکر کو گھر بھیج دیا۔ آدھے گھنٹے بعد نو کر پھر آیا کہ بیگم صاحبہ سخت تکلیف میں ہیں۔ کہا CMH جانے کیلئے ایمبولینس منگوالو میں ابھی آتا ہوں۔ جب تیسری دفعہ نوکر آیا تو کہا تم بیگم صاحبہ کو ایمبولینس میں لے کر ایبٹ آباد CMH چلو میں ابھی آتا ہوں۔ بیگم صاحبہ CMH گئیں۔ وہاں زچگی ہوئی۔ وہاں سے میس میں فون آیا کہ بیٹا ہوا ہے تو سب ساتھی کھلاڑیوں نے لعن طعن کی۔ کیپٹن وانچو مرحوم نے انہیں زبردستی میس کی کار میں ڈالا اور صبح کے وقت یہ ہانپتے کا نپتے CMH پہنچے۔
چند ماہ بعد ہی میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول پوسٹ ہو گیا اور 1971 ء تک وہاں رہا۔ ہمارے ساتھ بہت سے بنگالی آفیسر ز بھی تھے۔ میجر ضیاء الرحمن جو بعد میں صدر بنگلہ دیش بنے، وہاں انسٹرکٹر تھے۔ اکثر ٹی روم میں گپ لگتی۔ بہت کم گو، نیشنلسٹ اور مغرور قسم کے افسر تھے۔ ہمارے جیسے جونیئر افسروں کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے۔ لیکن تھے کھلے دل کے آدمی۔ رمضان میں افطاری کا خصوصی بندو بست کرتے، اور تمام آفیسر ز کو دعوت دیتے۔ بھابی خالدہ ضیاء (بعد میں وزیر اعظم بنگلہ دیش) بہت باوقار اور رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔ جب کبھی بھی ہم لوگ ملنے جاتے تو وہ کھلے دل سے خدمت کرتیں۔ گاجر کا حلوہ اور آلو کے پکوڑے خصوصی طور پر بنا کر کھلاتیں۔ اسی طرح میجر عبدالمناف جو بعد میں بنگلہ دیش آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف بنے، میجر خالد مشرف بنگلہ دیش آرمی میں جنرل کے عہدہ تک پہنچے، سب ہنسنے ہنسانے والے انسان تھے۔ بہت ذہین، پھر تیلے اور مکمل طور پر پروفیشنل آفیسر ز تھے۔ علاوہ ازیں میجر آفتاب احمد، کیپٹن مجیب الرحمن ،کیپٹن ضیاء الدین، کیپٹن صلاح الدین، میجر احمد علی کا کافی عرصہ ساتھ رہا۔ یہ تمام کے تمام اچھے آفیسرز اور محب وطن پاکستانی تھے۔ جب کبھی نجی محفلوں میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بات ہوتی تو یہ لوگ اس ایک فقرے پر ہمیں خاموش کروا دیتے ’’ خدا نہ کرے کہ ہماری زندگی میں ایسا ہو ‘‘بہت سے بنگالی آفیسرز 1965ء کی جنگ میں اور 1971ء کی جنگ میں بہت بہادری سے لڑے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالا تر تھی۔
1972ء میں میری پوسٹنگ وانا وزیرستان ہوئی۔ وہاں بر یگیڈیئر موجمدارمیس میں انڈ ر ہاؤس اریسٹ تھے۔ یہ وہ آدمی تھا جو 1971ء میں چٹاگانگ میں ایسٹ پاکستان رجمنٹل سنٹر کا کمانڈنٹ تھا۔ اس نے بہت سے مغربی پاکستانی آفیسرز اور جوانوں کو مروا دیا۔ کٹر قسم کا نیشنلسٹ تھا۔چٹاگانگ ریڈیو پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان بھی میجر ضیاء الرحمن نے ہی کیا تھا۔ اس وقت قرآن کریم کا بنگالی زبان میں ترجمہ کر رہاتھا، چائے کے وقفے کے دوران آکر ہمارے ساتھ بیٹھتا، کھلی گپ لگتی، بعد میں جب سیاسی حالات بہتر ہوئے اور بنگالیوں کی واپسی شروع ہوئی تو کچھ لوگ واپس بنگلہ دیش نہیں جانا چاہتے تھے۔ آرٹلری کے ایک کپتان صاحب نے یہ کہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ’’ میں نے پاکستان آرمی میں کمیشن لیا تھا اور میں نے اس ملک کی حفاظت کی قسم اٹھائی تھی۔ میں پاکستان کا سپاہی ہوں اور یہیں مروں گا۔ ‘‘یہ شخص یہیں رہا اور یہیں شادی کی، بر یگیڈئر بنا اور ریٹائرمنٹ کے بعدپنڈی میں رہائش پذیر ہوا۔
گلگت میں مجھے ایک بنگالی ٹروپس کے دستے کو رخصت کرنے کا اتفاق بھی ہوا۔ بڑا جذباتی منظر تھا۔ ان میں سے اکثر رو ر ہے تھے۔ ہم بھی اپنے آنسو قابو میں نہ رکھ سکے۔ گلے لگے ایک بنگالی حوالدار نے زور سے نعرہ لگایا ’’ پاکستان‘‘ باقی سب نے پر جوش طریقے سے جواب دیا’’ زندہ باد‘‘ ایک اور بنگالی NCO ضبط نہ کر سکا اور ایک پتھر پر چڑھ کر کہا ’’ ہم جارہے ہیں۔ انشاء اللہ اب دوبارہ نئی دہلی میں ملیں گے۔ ‘‘ خدا کرے کہ یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہو۔آمین!
…………………… (ختم شد)