محمد اعظم گِل
chazamgill@gmail.com
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کو روکنے کی تمام سازشی تھیوریاں ،مفروضے افواہیں کوششیں دم توڑ گئیں ہیں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی فلائٹ منسوخ کرواکر رات کو عدالت لگائی اور لاہورہائیکورٹ کا حکمنامہ معطل کر دیاہے۔عدالت نے قرار دیا کسی کو جمہوریت ڈی ریل نہیں کرنے دیں گے ،لاہور ہائیکورٹ کے جج (جسٹس باقر نجفی ) نے غیر ضروری جلد بازی کامظاہر کیا۔لاہور ہائیکورٹ کا علاقائی حدود سے تجاوز ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو جمعہ کی , رات بارہ بجے تک انتخابی شیڈول جاری کرنے کی ہدایت کی۔اور الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر بروقت انتخابات کے لیے اسی رات بارہ بجے سے قبل ہی الیکشن شیڈول جاری کر دیا یے۔جس کے تحت ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو کیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمعہ کی رات ہی چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں اراکین نے عدالتی فیصلے کے بعد کی صورت حال پر بریفنگ دی۔بعد ازاں اراکین نے انتخابی شیڈول 2024 کی منظوری دی جسے الیکشن کمیشن نے جاری کردیاشیڈول کے مطابق امیدوار 20 سے 22 دسمبر تک کاغذات نامزدگی جمع کرواسکیں گے جس کے بعد امیدواروں کی فہرست 23 دسمبر کو جاری کی جائے گی۔ شیڈول کے مطابق 24سے30 دسمبر تک امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہوگی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق 12 جنوری 2024 کو امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کی جائے گی جبکہ 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشانات جاری کیے جائیں گے، کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں کی سماعت تین جنوری تک ہوگی،ایپلٹ ٹربیونل دس جنوری تک اپیلیں نمٹائیں گے۔شیڈول کے مطابق عام انتخابات 8 فروری 2024 بروز جمعرات ہوں گے۔ نوٹیفکیشن فکیشن میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کی صوبائی نشستوں پر بھی اسی شیڈول کا اطلاق ہوگا۔دوسری جانب الیکشن کمیشن ا?ف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ کا شیڈول بھی جاری کردیا۔ جس کے تحت ریٹرننگ افسران کی تربیت 17 اور 18 دسمبر 2023 جبکہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ 19 دسمبر 2023 کو ہوگی۔15 دسمبر بروز جمعہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس میں میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 8 فروری کوانتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر کچھ ہی دیر بعد رات گئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیااوراسی رات سماعت کی۔عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرکے قرار دیا لاہور ہائی کورٹ ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران اور ریٹرنگ افسران بیوروکریسی سے لینے سے متعلق درخواستوں پر سماعت نہ کرے۔عدالت نے لاہور ہائیکورٹ سے کیس بارے مکمل ریکارڈ طلب کر لیا۔ادھر درخواستگزارپاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر عمیر نیازی کو نوٹس جاری کرکے وضاحت بھی مانگ لی ہے۔عدالت عظمیٰ نے قرار د یا کہ عمیر نیازی نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا، جس پر کیوں نہ اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ہم نے تو اسی تحریک انصاف کی درخواست پر عام انتخابات کی تاریخ بارے فیصلہ دیا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئین کا تقاضہ ہیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے متضاد ہے۔ الیکشن کمیشن 15 دسمبر کی رات بارہ بجے تک الیکشن پروگرام جاری کرے۔ حکم نامے کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کرائی آج ہی شیڈول جاری کرینگے، پیر کو ڈی آر اوز آر آوز تربیت کا دوبارہ آغاز کرینگے۔ 13 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے سیکشن 50 کے سب سیکشن 1 بی اور 51 کی سب سیکشن 1 کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ دونوں شقیں گزشتہ انتخابات میں بھی تھیں لیکن کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیا گیا۔عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ میں کیس کے ذریعے انتخابات 8 فروری کو طے ہوئے، تمام صوبائی حکومتوں کی سپریم کورٹ میں نمائندگی تھی۔حکم نامے میں لکھا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا ابھی انتخابات کے انعقاد بارے اقدام لے رہے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوسکیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا آج انتخابی شیڈول جاری ہونا تھا۔اگر ہائی کورٹ کا حکم برقرار رہا تو الیکشن پروگرام جاری نہیں ہوسکے گا۔سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن 8 فروری 2024 کو ہی ہوں گے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شرجیل سواتی نے کہا کہ ہم اس کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اس پر جسٹس سردار مسعود نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری فلائٹ مس ہوئی آپ کیسے مداوا کرینگے؟ لیکن کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لے کر کون گیا تھا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی تھی۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمیر نیازی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور الیکشن ایکٹ کی شق 50اور 51 کو چلینج کیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیس آج مقرر ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب مصروفیت کے باعث شریک نہیں ہوئے۔ اس لئے سینئر جج منصور علی شاہ کو بینچ میں شامل کیا، یہ وقت شفافیت اور احتساب کا ہے۔چیف جسٹس نے بتایا کہ جو بینچ کیس سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی ہے کیونکہ میں اکیلے بینچ تشکیل نہیں دے سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان (الیکشن کمیشن کے وکیل) کا کہنا ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کیا، بیورو کریسی سے آر اوز اور ڈی آر اوز لینے سے شفافیت پر کیسے سوال اٹھا تحریک انصاف کو اس وقت کیوں یاد آیا جب آر اوز ،ڈی آراوز تعینات ہوگئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ افیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افیسرز دینے کا استحقاق متعلقہ ہائیکورٹس کا ہے۔اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ڈی آر اوز اور آر اوز نہیں دیے۔ اس سال فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ درخواست مسترد کردی تھی کہ 13 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا تحریک انصاف چاہتی ہے ملک میں انتخابات نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا ہائیکورٹ کا ایک جج اپنے چیف جسٹس کو کہہ سکتا ہے جوڈیشل افسران نہ دو، کیا اب لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔جسٹس طارق مسعود نے الیکشن کمیشن کے وکلا سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم کے بعد کیوں ٹریننگ روکی اور اپنا معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ار اوز کی معطلی کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن بھی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت سے آر او اور ڈی آر او مانگے جا رہے ہیں؟ عدلیہ سے ڈی آر او آر او نہ ہوں ایگزیکٹو سے نہ ہوں تو پھر کہاں سے ہوں؟ اصل مقصد تو یہ لگتا ہے ملک میں انتخابات ہی نہ ہوں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے معزز چیف جسٹس کو بتایا کہ عمیر نیازی نے انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کیا کسی کا رشتہ دار ہے، عمیر نیازی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، جس جج نے پہلے فیصلہ دیا اسی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ بنا دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن سے کبھی رجوع کیا گیا۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کسی نے رجوع نہیں کیا۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہمارے فیصلے کو ڈی ریل کون کر رہا ہے۔ایک موقع پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمرہ عدالت میں کوئی پی ٹی آئی سے ہے؟ جس پر سب کمرہ عدالت میں دیکھنے لگے اور پھر کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے ڈی آر او اور آر او کی تربیت کا عمل کیوں روکا۔ انتخابات کو ڈی ریل کرنے کے پیچھے کون ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 7دن کی تربیت ہونا تھی لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کے ذریعے روکدیاگیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا مجھے ہائی کورٹ میں سماعت کا علم ہی نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اٹارنی جنرل سے سب کچھ مخفی رکھا گیا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ والے بلوچستان جا کر انتخابات رکوا دیتے ہیں، یہ بہت عجیب صورتحال ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کی کارروائی سے ہم 3 سے 4 دن پیچھے چلے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ کے معاملے پرہماری معاونت کریں، کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی نے مس کنڈکٹ کیا؟ لاہور ہائی کورٹ کا جج پنجاب کے باہر سے معاملات پر کیسے فیصلہ دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن بتائے ابھی تک شیڈول جاری کیوں نہیں کیا، قانون بتائیں کہاں لکھا ہے کہ ٹریننگ کے بعد شیڈول جارہی ہوگاعدالت نے وفاق ،صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی۔عدالت نے لاہورہائیکوٹ کا عدالتی ریکارڈ بھی منگوالیا گیاہے۔15 دسمبر جمعہ کے روز الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے سپریم کورٹ میں اہم ملاقات کی جس میں لاہور ہائیکورٹ کے آر او سے متعلق حکمنامے کے بعد عام انتخابات کے معاملے کے حوالے سے پیدا ہونے کی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔ملاقات میں جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن بھی شریک تھے۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی ملاقات میں شریک تھے۔ چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس کی دعوت پر سپریم کورٹ آئے اور انہوں نے ججزکو لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے آگاہ کیا۔
عوام کی امیدوں کا محور عام انتخابات 2024کا شیڈول جاری
Dec 19, 2023