پاکستان میں حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنا ہے لیکن بدقسمتی سے اگر ہم اور کچھ نہیں تو گذری چار پانچ دہائیوں میں یہ دیکھیں کہ کون سا حکمران تھا جس نے عام آدمی کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے اور زندگی کو آسان بنانے پر کام کیا ہے یا پھر عام آدمی کی ضروریات کو پورا کرنے پر زور دیا ہے تو اس حوالے سے کوئی بہت نمایاں کام نظر نہیں آتا، عام آدمی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے اور وسائل سے محروم افراد کے درد کو محسوس کرنے کی بات ہو تو یہاں بھی حکمران طبقے کے اقدامات کو دیکھ کر صرف اور صرف تکلیف ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ حکومت میں آنے والے ووٹ حاصل کرنے کی حد تک تو عام آدمی کے حمایتی ہوتے ہیں لیکن عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں وسائل سے محروم افراد کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، نہ تو ان کا طرز زندگی بلند کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہوئیں نہ ہی کسی نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی ایسی منصوبہ بندی پر غور کیا جس سے عام آدمی کے لیے زندگی آسان ہو سکے۔ یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ اب کون ہے جو یہ بات کر رہا ہے اور ماضی کے حکمرانوں نے کیا غلط کیا یا ان کے کن فیصلوں سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہوئی ہے تو یہ بھی اسی کالم میں سمجھانے کی کوشش ضرور کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ اس وقت عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کا ہدف عبدالعلیم خان بنا چکے ہیں، انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے اب تک جب بھی بات کی ہے اس گفتگو کا مرکز عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ گوکہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں کیا وہ ایسا کر پائیں گے، جو لوگ عبدالعلیم خان سے واقف ہیں ان کے بارے جانتے ہیں انہیں تو اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ اگر عبدالعلیم خان کو حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے تو جو کچھ عام آدمی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے وہ کہہ رہے ہیں اس کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ان کی زندگی کا مقصد و محور ہے کہ اردگرد لوگوں کی زندگی میں آسانی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے، لوگوں کی زندگی کو بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے، انہیں اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کام برسوں سے کر رہے ہیں، جیسے ہر شخص اپنے کھانے پینے اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے عبدالعلیم خان اسی لگن اور جوش و جذبے سے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان دنوں وہ استحکام پاکستان پارٹی کی صدارت کر رہے ہیں اور اس پلیٹ فارم سے اپنے ملک کے شہریوں سے مخاطب ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے مرکزی صدر عبدالعلیم خان نے اپنے آبائی حلقے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "عوام کی خدمت الیکشن جیتنے کیلئے نہیں کر رہیعوام نے منتخب کیا توتین سو یونٹ تک بجلی کا بل مفت کریں گے، عوام بجلی چلائیں گے اور بل حکومت اد کرے گی۔ میرے لیے بہت خوشی کا باعث ہے اپنے حلقے میں واپس دوستوں سے رابطہ شروع کیا ہے دو ہزار تین سے اس حلقے سے الیکشن لڑتا رہا ہوں یہ حلقہ میرے لیے کوئی سیاسی حلقہ نہیں ہے ایسا وقت بھی آیا جب میں نے اس حلقے سے الیکشن نہیں لڑا تھا۔ کوئی ایک ایسا شخص دکھا دیں جس کا رابطہ پندرہ ہزار گھروں سے ماہانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے، سات سے آٹھ ڈسپنسریاں گذشتہ کئی سالوں سے چلا رہے ہیں، ایک سو پچاس کے قریب فلٹریشن پلانٹ چلارہے ہیں، مہینے میں ہر ڈسپنسری میں دو سے تین ہزارمریضوں کا علاج مفت ہو رہا ہے۔عوام کی خدمت الیکشن جیتنے کیلئے نہیں کر رہے۔ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں وہ بجلی کا بل دے سکیں، دو لائٹس اور دو پنکھے چلانے کا بل بیس بیس ہزار روپے آجاتا ہے،عوام نے منتخب کیا تو تین سو یونٹ تک بجلی کا بل مفت کریں گے۔ جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں وہ پیٹرول کے پیسے پورے دیں گے،موٹرسائیکل والوں کو بھی پٹرول آدھی قیمت پر ملے گا۔ عبدالعلیم خان نے اپنے دونوں بیٹوں کے سامنے کہا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں اور ان کے بیٹے ہیں عوام کی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اس عوامی خدمت کا فلاحی کاموں سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی خدمت ایک عظیم مقصد ہے اور یہ کام خالق کائنات کی خوشنودی کے لیے ہے اللہ ہی اس کی جزا دینے والا ہے سو جو کوئی بھی ووٹ ڈالنے جائے اس پر یہ کوئی زور یا زبردستی نہیں کہ وہ ہمارے فلاحی کاموں سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو ووٹ ڈالنا لازم ہے یہ ہر شخص کا اپنا فیصلہ ہے اسے لگتا ہے کہ عبدالعلیم خان حکومت میں آ کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے تو ضرور مجھے ووٹ کرے اور اگر ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ عبدالعلیم خان سے بہتر کوئی اور ہے تو یہ بھی ووٹر کا اپنا فیصلہ ہے۔"
درحقیقت یہ وہ سوچ ہے جس سے ہمارے سیاست دان دور ہیں، عوام کی خدمت اگر کی جاتی تو آج ملک مقروض نہ ہوتا، توانائی کا بحران نہ ہوتا، بجلی کے بل پہنچ سے باہر نہ ہوتے، گیس کی قلت نہ ہوتی نہ ہی گیس اتنی مہنگی ہوتی، ڈالر بیقابو نہ ہوتا، ایکسپورٹ کم نہ ہوتی اور امپورٹ پر انحصار نہ ہوتا، تعلیم کا معیار نہ گرتا اور نہ ہی تعلیم مہنگی ہوتی، صحت کی سہولتیں سب کے لیے آسانی سے دستیاب ہوتیں، غربت نہ بڑھتی، مہنگائی آسمان کو نہ چھو رہی ہوتی، ادویات سستی ہوتیں، معاشرے میں نفرت نہ ہوتی، محبت کے جذبات ہوتے، یہاں تو ہر دوسرا شخص نفرت کے جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ سیاسی قیادت نے نہ تو رہنمائی کی، نہ تربیت کی، نہ سمت کا تعین کیا۔ آج کی تمام خرابیوں کی وجہ سیاسی قیادت کے غلط فیصلے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ آئندہ عام انتخابات میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟؟؟؟
آخر میں عزم بہزاد کا کلام
کہیں گویائی کے ہاتھوں سماعت رو رہی ہے
کہیں لب بستہ رہ جانے کی حسرت رو رہی ہے
کسی دیوار پر ناخن نے لکھا ہے رہائی
کسی گھر میں اسیری کی اذیت رو رہی ہے
کہیں منبر پہ خوش بیٹھا ہے اک سجدے کا نشہ
کسی محراب کے نیچے عبادت رو رہی ہے
یہ ماتھے پر پسینے کی جو لرزش تم نے دیکھی
یہ اک چہرے پہ لا حاصل مشقت رو رہی ہے
عجب محفل ہے سب اک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
یہ خاموشی نہیں سب التجائیں تھک چکی ہیں
یہ آنکھیں تر نہیں رونے کی ہمت رو رہی ہے
جو بعد از ہجر آیا اس کو کیسے وصل کہہ دوں
شکایت سے گلے مل کر ندامت رو رہی ہے
اسے غصہ نہ سمجھو عزم یہ میرے لہو میں
مسلسل ضبط کرنے کی روایت رو رہی ہے