ڈپٹی کمشنرز ایک پارٹی کے لوگوں کو گرفتار کرارہے، ایسے حالات میں شفاف الیکشن ہونگے: پشاور ہائیکورٹ

پشاور (نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں کرانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ ہائیکورٹ میں ڈی آر اوز کی تعیناتی کے خلاف پی ٹی آئی کی رٹ پٹیشن پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے  کہا الیکشن کمشن نے یکم جولائی کو ہائیکورٹ کو خط لکھا اور افسر مانگے، الیکشن کمشن نے پہلے اے اور بی آپشن کو چھوڑ کر سی آپشن اپنایا، جب الیکشن کمیشن نے سی آپشن اپنایا تو پھر بی آپشن پر کیسے چلے گئے، بلوچستان ہائیکورٹ نے تو کہا تھا کہ ہم الیکشن کے لیے عملہ دیتے ہیں پھر کیا ان سے مشاورت ہوئی؟۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ بلوچستان ہائیکورٹ سے افسروں کی لسٹ مانگی پھر انہوں نے انکار کردیا۔ چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ خیبر پی کے  میں 700 سے زائد تھری ایم پی او کے آرڈرز جاری کئے گئے، پشاور میں 147 بار تھری ایم پی او آرڈر ایشو کیا گیا، 24 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اس تگ و دو میں بیٹھے رہے کہ ایک پارٹی کے لوگوں کو گرفتار کریں، کیا ایسے حالات میں شفاف الیکشن ہوں گے، جہاں بار بار ڈپٹی کمشنرز صاحبان ایم پی او آرڈر جاری کررہے ہیں، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اب تبدیل ہوجائیں گے؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ایک پارٹی بار بار خلاف ورزی کررہی ہے اس وجہ سے انتظامیہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری کرتی ہے، سپریم کورٹ کو تو الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن پر ہمیں بھی اعتماد ہے، یہ بتا دیں کہ اگر اس پارٹی کا امیدوار کاغذات جمع کرانے کے لئے آتا ہے تو اس کے ساتھ ویسے برتاؤ کیا جائے گا جیسے دوسرے پارٹی کے ساتھ ہوگا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ نے بتایا کہ تھری ایم پی او کا بیک گرائونڈ 9 مئی واقعات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی تو گزر گیا اب کیا وجوہات ہیں کہ روزانہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری ہوتے ہیں۔ وکیل جے یو آئی نے کیس میں فریق بننے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ آپ تو فریق ہی نہیں، ہم آپ کو کیسے سنیں، یہ تو پرائے کی شادی میں دیوانے والی بات ہوگئی۔ جسٹس شکیل احمد کے ریمارکس پر وکلاء  بھی ہنس دیے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن عملے کو 2 ماہ پہلے تعینات کرنا ہوتا ہے، جب الیکشن کے لئے بروقت انتظامات نہیں کئے تو اب شفاف الیکشن کیسے کرائیں گے۔ پشاور ہائیکورٹ نے جوڈیشل افسر دینے سے تو انکار نہیں کیا، یہ کہتے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ نے انکار کیا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ جب وقت آئے تو اس وقت آپ آجائیں لیکن پھر یہ خود نہیں گئے۔ پھر سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پورے پاکستان کے لئے کیسے نوٹیفکیشن معطل کیا۔

ای پیپر دی نیشن