اسلام آباد (سپیشل رپورٹ+ ایجنسیاں) صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ پاکستان اس جنگ میں قربانیاں دے رہا ہے۔ پاکستان کی فوج نے سوات میں پاکستان کا جھنڈا دوبارہ لہرایا ہے۔ ممتاز شاعر فیض احمد فیض کی 100 ویں برسی کے موقع پر ایوان صدر مےں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کے جوان دہشت گردی کے خلاف جان دے کر عوام اور ملک کو بچا رہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ میری پارٹی کے بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ میں سیاست میں بہت زیادہ جھک گیا ہوں لیکن میں چونکہ دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اس لئے میں اس موقع پر مفاہمت کی سیاست پر عملدرآمد کر رہا ہوں۔ محاذ آرائی کی وجہ سے ہم پہلے ہی ملک کو تڑوا کر بنگلہ دیش بنوا چکے ہیں۔ صدر نے کہا کہ ”متحدہ امارات بلوچستان“ بنانے کی تیاریاں ہو چکی تھیں جن کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ خیبر پی کے کے سارے بھائی اپنے سینے پر گولیاں کھا کر پاکستان کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے فیض احمد فیض کی طرح جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں اور جیلیں کاٹی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے وطن اور جمہوریت کے لئے جان کی قربانی دی ہے۔ صدر نے کہا کہ جب بے نظیر بھٹو دوبئی سے واپس وطن آ رہی تھیں تو میں نے اپنی بیٹیوں اور بیٹے سے کہاکہ اپنی ماں کو سمجھا¶ کہ وہ اس انداز میں پاکستان نہ جائیں لیکن انہوں نے پاکستان آنے اور جمہوریت کی بحالی کا عزم کر رکھا تھا۔ کراچی میں ان کی ریلی میں بم دھماکہ ہوا تو پی پی پی میں شامل بے نظیر کے جانثاروں نے بھاگنے کی بجائے بے نظیر کو بچانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں انہوں نے جانیں دیں۔ صدر نے کہا کہ میں جس کرسی پر ہوں وہاں سے مجھے بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں نے اقتدار کو پہلے ”مرد اول“ کی حیثیت سے اور اب صدر کی حیثیت سے دیکھا تو مجھے احساس ہوا ہے کہ ملک کے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں۔ صدر نے کہا کہ بعض پروگراموں میں پولیس پر تنقید ہوتی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پولیس کے نوجوان خودکش جیکٹوں کے بغیر دہشت گردوں کو پکڑتے ہوئے جان دے دیتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ جب سوویت فوجیں افغانستان سے نکل رہی تھیں تو اس وقت پاکستان کے لئے خطرات تھے۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کو جلال آباد منصوبہ دیا گیا تھا اس وقت بی بی نے سینئر بش کو کہا تھا کہ آپ افغانستان سے جا رہے ہیں لیکن آپ ایک ایسی بلا چھوڑ کر جا رہے ہیں جو آپ کو کھا جائے گی، بی بی کی بات درست ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ فیض احمد فیض اور ذوالفقار علی بھٹو نے مظلوم کمزور اور استحصال کا شکار طبقات کے حقوق کےلئے آواز بلند کی اسی مشترکہ قدر کی وجہ سے انہیں دنیاوی مصائب کا نشانہ بننا پڑا۔ ایک نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں تو دوسرے نے پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا جب بھی آزادی، مساوات اور انسانی وقار کے تصورات کی بات ہوگی تو بھٹو اور فیض کا نام نمایاں نظر آئے گا۔ ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اتحاد اور قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ صدر نے اس موقع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی مےں ”فیض چیئر“ کے قیام، سیالکوٹ مےں فیض لائبریری بنانے اور ان کی زندگی کی جامع کتاب کی اشاعت کا اعلان کیا۔ سلیمہ ہاشمی اور مشتاق یوسفی نے بھی خطاب کیا۔ ضیا محی الدین نے فیض کی نثر اور شاعری سے اقتباسات پیش کئے اور ٹینا ثانی نے کلام فیض سنایا، نظامت معروف شاعر وصی شاہ نے کی۔ افتخار عارف نے صدر کو فیض کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے کتب کا تحفہ پیش کیا۔صدر زرداری نے دعویٰ کیا کہ بی بی جب 2007 میں پاکستان واپس آ رہی تھیں تو دبئی میں انہوں نے میری بیٹیوں اور بیٹے کے سامنے کہا تھا کہ میرے بعد آصف زرداری پارٹی کا سربراہ ہو گا کیونکہ بے نظیر جانتی تھیں کہ میں نے خوفزدہ ہوئے بغیر اور تھکے بغیر جیل کاٹی تھی انہوں نے کہاکہ پھر ایک تحریر لکھی گئی وہ اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ صدر نے کہاکہ اس تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آصف پارٹی کے سربراہ نہ بنیں تو پھر مشورے کے بعد کسی اور کو پارٹی سربراہ بنا سکتے ہیں۔ بی بی کی شہادت کے بعد میں اور میری بیٹیوں اور بیٹے نے مل کر روڈ میپ بنایا جس میں ہم نے بلاول کے نام کے ساتھ بلاول زرداری بھٹو کا اضافہ کیا اور اسے پارٹی کا چیئرپرسن بنانے کا فیصلہ کیا۔
زرداری
زرداری