معرکہ کارگل کے دو شہید

بھارت نے کارگل سے چند سو مجاہدین کو نکال باہر کرنے کے لئے 1971ءکی جنگ کے بعد پہلی دفعہ اپنی فضائیہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس طرح بھارت کی بری افواج درپیش چیلنج کے سائز کے مقابلے پر بہت بڑی تعداد میں مقبوضہ کشمیر میں سال ہا سال سے تعینات ہیں۔ اسی طرح کارگل سیکٹر سے مجاہدین آزادی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت نے درجنوں لڑاکا طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے آپریشن کو ”وجے“ کا نام دیا اور اپنی غیر معمولی جنگی استعداد کا مظاہرہ کرنے کے لئے Over Kill کا راستہ اختیار کرنے کا پروگرام بنایا۔ 30ہزار فوجیوں کو اس محاذ پر لایا گیا۔ 60/70لڑاکا طیارے جھونکے گئے۔ توپ خانہ اور پیادہ فوج کو بھی استعمال میں لایا گیا۔ لیکن کارگل سے مجاہدین کو نکالنے میں بھارت کو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یوں تو ہمارے تمام بہادر سپاہیوں نے بڑی بہادری اور دلیری سے ہندوستان کی اس یلغار کا مقابلہ کیا مگر ہمارے کیپٹن کرنل شیر اور حوالدار لالک جان نے بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور دونوں کو حکومت پاکستان نے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔ میں چاہتا ہوں افواج پاکستان کے ان دو عظیم ہیروز کے متعلق قوم کا بچہ بچہ آگاہی حاصل کرے کہ ایسے ہی بہادر فوجیوں کے لہو سے وطن کی مٹی سیراب ہو کر لیلائے وطن کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ کیپٹن کرنل شیر معرکہ کارگل میں جرات مندی، بے باکی اور دلیری کا ایک انمول پیکر بن کر ابھرے۔ گلتری اور مشکوہ سیکٹر میں انہوں نے اپنی بہادری کی بے پناہ مثالیں رقم کیں۔ محاذ جنگ کی اگلی دفاعی لائنوں میں انہوں نے ایک عسکری قائد کی حیثیت سے جو ذاتی مثالیں قائم کیں وہ ان جوانوں کے لئے قابل تقلید اور مشعل راہ ثابت ہوئیں اور انہوں نے دشمن پر کئی بار کاری ضربیں لگائیں۔ معرکہ کارگل سے قبل کیپٹن کرنل شیر نے گلتری میں 15ہزار سے 17ہزار فٹ کی بلندی پر موجود برف پوش چٹانوں پر ایک نہیں بلکہ پانچ فوجی چوکیاں قائم کیں اور ان چوکیوں کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور ان کی قائم کردہ چوکیوں نے بالآخر دشمن کے تمام جارحانہ عزائم کو ناکام بنا دیا۔ 7اور 8جون کی درمیان شب دشمن کی ایک بٹالین نے کرنل شیر کی پوسٹ کے پیچھے نفوذ کرنے کی کوشش کی۔ کیپٹن شیر نے دشمن کے ان ارادوں کو بھانپا اور بے مثال جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے دشمن کی موثر ناکہ بندی کی جس کی بدولت اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ 8جون 1999ءکو اس مایہ ناز فرزند وطن کی عقابی آنکھ نے بھانپ لیا کہ دشمن پتھریلی چٹانوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور تازہ کمک کا انتظار کر رہا ہے۔ کرنل شیر نے فوراً سیکشن کی نفری پر مشتمل ایک ”لڑاکا گشت“ ترتیب دی اور خود اس کی قیادت کی اور حملے کی تیاری میں معروف دشمن پر رات کو چھاپہ مارا اور اس کے 40سپاہیوں کو ڈھیر کر دیا اور دشمن کے صفوں میں تہلکہ مچا دیا۔ 5جولائی کو دشمن کی دو بٹالین کی نفری نے کرنل شیر کی پوسٹ پر کئی اطراف سے حملہ کر دیا اور توپ خانے کی بے پناہ گولہ باری سے شروع ہونے سے کیپٹن کرنل شیر شدید زخمی ہو گئے اور گہرے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جیتی چوکی پر شہادت کے عظیم مرتبے سے سرفراز ہو گئے۔ حوالدار لالک جان انفنٹری کے نڈر اور بہادر سپاہی تھے۔ بحیثیت ایک جونیئر لیڈر انہوں نے جرات مندانہ اقدامات کی بدولت دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور اس کے متعدد حملے پسپا کر دیے۔ مئی 1999ءکو جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ دشمن ایک بڑے زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے تو حوالدار لالک جان نے اگلے مورچوں پر لڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ حوالدار لالک جان نے آگے جانے پر اصرار کیا اور ایک انتہائی مشکل اور دشوار گزار پہاڑی چوکی پر دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے کمر باندھ لی۔ دو بار دشمن حوالدار لالک جان کی چوکی پر حملہ کیا مگر اسے اس بہادر ہیرو کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی اور مسلسل دو راتوں کے حملوں میں ناکام ہو کر دشمن اپنی لاشوں کے انبار چھوڑ کر پسپا ہوتا رہا۔ تاہم 7جولائی کو دشمن کے حوالدار لالک جان کی پوسٹ پر توپ خانے کا بھرپور فائر گرایا۔ حوالدار لالک جان شدید زخمی ہوئے اور اپنی پوسٹ پر یہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ قارئین کرنل شیر اور حوالدار لالک جان نے جس دلیری، بے باکی اور جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے وطن کی آبرو پر اپنی جان نچھاور کی اس کی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ کارگل معرکے کے تمام شہیدوں اور غازیوں نے بے خوفی کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جھپٹ کر پلٹنا اور پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا صفاتی اعتبار سے پاکستان کے عساکر کی پہچان بن گیا۔ جاتا ہے ہے خون شہیدوں کا رائیگاںکرتا ہے آبیاری تن ہائے زندگان قدرت سے ہے ودعیت اسے طاقت نموہر قیمتی سے بڑھ کے ہے قیمت میں یہ لہو 

ای پیپر دی نیشن