منگل ‘ 8 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 19 فروری2013 ئ

Feb 19, 2013

سیالکوٹ میں پولیس اہلکار نے اقبال منزل میں داخل ہو کر نایاب تصاویر کے شیشے توڑ ڈالے۔کیاپولیس کی وردی پہن کر انسان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے اور اسے اچھا بُرا کچھ سُجھائی نہیں دیتا؟ اب دیکھنا ہے اس اہلکار ”ناہنجار‘ کو کون سی تکلیف پہنچی تھی یا وہ عالمِ مدہوشی میں تھا کہ اس نے مفکرِ پاکستان کے گھر میں گھس کر یہ مذموم حرکت کی۔ پہلے یہ کیا کم تھا کہ یہ بے لگام پولیس ہر خاص و عام پاکستانی کے گھر میں دھڑلے سے گھس جاتی ہے اور چار دیواری کی حرمت پائمال کرتی ہے، اب تو حد ہو گئی مفکرِ پاکستان جس نے اس ارضِ وطن کا خواب دیکھا اس کا گھر بھی پولیس گردی کا نشانہ بن گیا .... یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہواس بدبخت کیخلاف جب مقامی معززین اور شہری احتجاج کرتے تھانے پہنچے تو پولیس نے روایتی ”پُھرتی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم کو غائب کر دیا کہ کہیں جوابی کارروائی کے طور پر اس کی توڑ پھوڑ نہ ہو جائے اور شہریوں کو تسلی دی کہ ملزم پولیس اہلکار کے خلاف قومی و تاریخی ورثہ کی توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ”ناخلف“ کو کڑی سزا کب ملتی ہے۔

 ٭۔٭۔٭۔٭۔٭

شریف برادران جب تک لوٹوں کا ناشتہ نہ کر لیں روٹی ہضم نہیں ہوتی، جنگلہ بس سروس میں ایشیا کی تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن ہوئی ہے : پرویز الٰہی ....دیکھتا ہے جب نہ تب کڑوی نگاہ سے مجھے چشمِ قاتل ہے کہ کوئی تلخ یہ بادام ہے معلوم نہیں کیوں جب انسان مخالفت پر اُترتا ہے تو اچھائی کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ میٹرو بس سروس عوام کے فائدہ کیلئے ایک عمدہ ٹرانسپورٹ سکیم ہے مگر ہمارے ڈپٹی وزیراعظم کو یہ نظر نہیں آتا بلکہ ہمیں لگتا ہے سپنے سنگی ساتھی حکمرانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انہیں ہر جگہ کرپشن نظر آ رہی ہے حالانکہ یہ منصوبہ کم لاگت میں مقررہ وقت پر مکمل ہوا، کرپشن تب ہوتی جب مقررہ لاگت سے زیادہ اخراجات ہوتے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کہیں مارے رنج و الم کے کسی دن خود ڈپٹی وزیراعظم صاحب بھی کسی میٹرو بس کے آگے کود نہ جائیں۔ رہی بات لوٹوں کے ناشتہ کے بغیر کھانا ہضم نہ ہونے کی تو .... آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی یہ عادتِ بد تو آپ نے بھی اپنائی تھی جب آپ صاحبِ عالم مشرف کے دامن پناہ گیر میں جا چھپے تھے اور ”جملہ ہجومِ لوٹاں“ آپ کے ہمراہ تھا اور عرصہ دراز تک آپ انہی کے دم قدم سے پنجاب کے حکمران رہے۔

 ٭۔٭۔٭۔٭۔٭

الیکشن کمشن کو نہیں مانتا : جس نے جو کرنا ہے کر لے، انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ہوئے تو انتخابات کا صفایا کر دیں گے : طاہر القادری علامہ صاحب کی برہمی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے آجکل علامہ صاحب کے زائچہ میں مریخ اور زحل دونوں اُلٹی حالت میں ہیں جس کی وجہ سے ان کو تمام کام اُلٹے نظر آتے ہیں غصہ الگ رہتا ہے جبھی تو وہ سارا نظامِ عالم اُلٹنے کے چکر میں ہیں۔ اس لئے تو ایسے بیانات ارشاد فرما رہے ہیں انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کچھ ترمیم کے ساتھ .... او چشم لرزاں کے لرزاں دوعالم اور زلف برہم کہ برہم نظامے جب سے جناب شیخ کینیڈا سے اس خاکدانِ گیتی میں آئے ہیں لگتا ہے سبب عارضہ بصارت و بصیرت انہیں یہاں کی ہر چیز اُلٹی نظر آتی ہے اور وہ ہر درست چیز کو بھی اُلٹنے کی مشق فرمانے لگتے ہیں، یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اس گھر کے کچھ محافظین چوکس ہیں اور ”علامہ شرارتی“ کو توڑ پھوڑ سے روکے ہوئیں ہیں ورنہ بدحواسیوں اور بڑھکوں کی جتنی خوبصورت پیروڈی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ صاحب کرتے ہیں ان کی ویڈیو اگر علامہ صاحب دیکھ لیں تو اداروں کا صفایا کرنے اور انتخابات کا تختہ الٹانے کی بجائے کہیں غلطی سے اپنا ہی دھڑن تختہ نہ کر لیں، دوسری طرف حال یہ ہے کہ انکی حفاظت بھی حکومت پنجاب کے سر ہے جس کی مد میں ماہانہ 20 لاکھ روپے ادا کرنا پڑ رہے ہیں کیونکہ علامہ صاحب کی حفاظت کیلئے 2 پولیس گاڑیاں اور 40 ایلیٹ فورس کے اہلکار مستعد رہتے ہیں‘ اسے کہتے ہیں ”مال مفت دلِ بے رحم“۔اس لئے انہیں وطن واپس لانے کے ذمہ داران سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ان کی باحفاظت واپسی کا بندوبست کرتے ہوئے ان کیلئے کینیڈا کا ٹکٹ کٹا دیں۔

 ٭۔٭۔٭۔٭۔٭

عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دینا پختونوں پر باچا خان کا قرض ہے : میاں افتخار وزیر اطلاعات صوبہ خیبر پی کے، کے اس بیان کو پڑھ کر ہر ذی ہوش ”ناطقہ سر بہ گریباں ہوں اسے کیا کہئے“ کے مصداق حیران ہے کہ ایک صاحب جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے‘ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے سب سے بڑے مخالفوں میں تھے۔جماعت کے بانیان کی طرح وہ بھی قیام پاکستان کیخلاف تھے ‘ جماعت نے تو پاکستان کو اپنا بنا لیا لیکن قیام پاکستان کے بعد بھی جنہوں نے دل سے اس ملک کو تسلیم نہیں کیا اور مرنے کے بعد بھی یہاں دفن ہونا گوارہ نہ کیا اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں مدفون ہوئے‘ ان کا پاکستان کے کسی شہری پر کیسا قرض کہ وہ ووٹ کی شکل میں اسے بمعہ سود واپس لوٹائے؟ خیبر پی کے غیور پٹھان 1947ءکے ریفرنڈم کی طرح اس بار بھی مستحکم پاکستان کے حمایتوں کے حق میں حق رائے دہی استعمال کر کے ثابت کر دیں گے کہ ....

 خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں

 توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری 

مزیدخبریں