ایک خبر ہے اور سوچنے والی بات بھی ہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری لاہور میں مکان بنائیں گے اور ریٹائر ہونے کے بعد یہاں رہیںگے۔ آرمی چیف بھی لاہور میں مکان بنائیں گے۔ سرکاری پارٹی چیف نے لاہور میں بم پروف قلعہ نما محل بنا لیا ہے۔ حکومتی اپوزیشن چیف کا محل پہلے سے بن گیا۔ لاہور کوئٹہ سے دور ہے؟ اس طرح چیف جسٹس اور ہمارے درمیان فاصلے نہیں رہیں گے۔ یہ امید ہے اور عوام امید پر زندہ ہیں۔ ہمیشہ ایسے ہی زندہ رہتے ہیں تب وہ فیصلے نہیں کریں گے۔ فاصلے ہمیشہ فیصلوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے بہت پہلے ایک شعر لکھا تھا
اس کے میرے درمیاں ہیں فیصلوں کے فاصلے
میں یہاں موجود ہوں اور وہ وہاں موجود ہے
چیف جسٹس کو لوگوں نے اپنا نجات دہندہ سمجھا تھا اور وکلا کے ساتھ مل کے ایک طویل تحریک چلائی تھی اور وہ بظاہر کامیاب بھی ہوئی۔ مگر وہ بات تو نہ ہوئی۔ میں ان لوگوں میں تھا جو کہتے تھے چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ ان بے شماروں میں یہ خاکسار بھی تھا جو کسی شمار قطار میں نہیں۔ وکیل بھائیوں کی مہربانی تھی کہ مجھے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے تقریب کے دوران ایوارڈ دیا گیا اور میں ایوارڈ دینے کی تقریب میں بھی تھا جس میں میرے عزیز دوست سعداللہ شاہ کو ایوارڈ دیا گیا۔ اس نے بے شمار شاعری چیف کی بحالی کے لئے کی تھی۔ میں اسے بے شمار شاعر بھی کہتا ہوں۔ یہ کتنا برمحل ہے۔ چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔ ہم تو اب بھی جان نثار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا
جان تم پہ نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
ہمیں وفا کا پتہ تو چلنے نہیں دیا گیا مگر ہمیں اتنا معلوم ہو گیا کہ ہم بے وفاﺅں کے ساتھ وفا کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔ کوئی فیصلہ ہمارے حق میں تو نہ ہوا۔ صرف سیاسی فیصلے ہوتے رہے بلکہ لٹکتے رہے اور ہم اپنے ہی دل کی دنیا میں بھٹکتے رہے۔ وہ فیصلہ جس میں کئی سال لگ جائیں اور اس کا کوئی نتیجہ بھی نہ نکلے تو وہ کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ کوئی اور ”انقلاب“ تو نہ آیا لوگوں نے چاہا کہ شاید ”عدالتی انقلاب“ آئے، وہ بھی نہ آیا تو مظلوم اور محکوم لوگ کہاں جائیں گے۔ لوگوں کو انصاف کب ملے گا۔
بلوچستان میں دوسری بار ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں پر ظلم کی قیامت توڑ دی گئی۔ منیر نیازی نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا
یہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
آج بھی کسی پر ظلم ہوتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ چیف صاحب س¶موٹو ایکشن لیں۔ اب وہ سوچتے ہیں کہ اس سے بھی کیا ہو گا۔ کراچی میں روز دس بارہ لاشیں گرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایکشن بھی لیا مگر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جب ایسا کچھ ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فوج کو بلایا جائے۔ سیاستدان بھی کہتے ہیں۔ کراچی میں اے این پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پیپلز پارٹی کے لوگ بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ مگر چیف جسٹس کی طرح شاید آرمی چیف جنرل کیانی بھی کوئی ایسا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں جو فیصلہ کن ہو۔ رہی بات چیف ایگزیکٹو کی تو وہ اصل حکمران نہیں۔ اسے جس شخص نے چیف ایگزیکٹو بنایا ہے وہ اسے ہٹا بھی سکتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے ہٹایا ہے۔ حکم تو سپریم کورٹ نے دیا تھا مگر اس پر عملدرآمد صدر زرداری نے کیا۔ ورنہ کئی فیصلوں بلکہ ہر فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ کہتے تو سب سرکاری سیاستدان یہی ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کی عزت کرتے ہیں۔
اب گیلانی صاحب پھر پٹیشن کر رہے ہیں کہ میری نااہلی کی پابندی واپس لے لی جائے ۔ حیرت ہے کہ ان کی کرپشن سے ساری دنیا واقف ہے مگر انہیں توہین عدالت کے جرم میں برطرف کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ وزیراعظم کے طور پر جو کرتے رہے ہیں۔ توہین حکومت ہے اور یہ توہین عدالت سے بڑھ کر ہے۔ یہ شوشہ بھی ایک منصوبہ بندی ہے کہ فوج نہ آ جائے ۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس ان کے فیصلوں سے زیادہ زبردست ہوتے ہیں ”کسی غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ جو اس ملک میں آئین کے نام پر غیر آئینی اقدام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ ملک میں صرف پارٹی چیف جو چاہتے ہیں کر رہے ہیں وہ ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ وہ بھی ہونے والا ہے جو نہیں ہونے والا؟ وزیر قانون کو سوئٹزر لینڈ سے یہ اطلاع مل گئی ہے کہ صدر زرداری کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔ یہ بات پہلے سے صدر زرداری کو معلوم تھی۔ انہوں نے خواہ مخواہ اس معاملے کو طول دیا۔ سپریم کورٹ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے۔ کون کس سے پوچھے کہ لوگوں کو کس بات کی سزا دی گئی۔
کوئٹہ میں پولیس ہے، ایف سی ہے، گورنر کے گارڈز بھی ہیں۔ پولیس افسران اور افسران کی حفاظت پر مامور فورس بھی ہے مگر آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔ یہ آواز سیاسی حکومت والے تو سنی ان سنی کر دیتے ہیں مگر کیا یہ چیخیں اور فریادیں چیف جسٹس تک نہیں پہنچیں؟ آرمی چیف تک بھی نہیں پہنچیں؟۔ ایک شیعہ عالم دین کی یہ بات غور طلب ہے کہ سول انتظامیہ کو ہٹاﺅ پولیس اور ایف سی اور ان کے کنٹرول میں ایجنسیوں کو ہٹاﺅ اور فوج کو بلاﺅ۔ نام نہاد جمہوری حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ بدنام بھی ہو گئی ہے۔ اب ان کے پاس وقت سے پہلے ہٹائے جانے کا بہانہ بھی نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پھر نہ آنے دیا جائے۔ کیا اس کے لئے بھی چیف جسٹس اور آرمی چیف کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے؟ میں نے لکھا تھا کہ میں فوج اور عدالت کے سیاست اور حکومت میں آنے کے حق میں نہیں مگر کچھ تو کیا جائے۔ مگر کیا کیا جائے؟ وہ وقت آ چکا ہے کہ یہ سوچا جائے کہ کیا نہ کیا جائے؟
اس سال کے آخر تک آرمی چیف اور چیف جسٹس ریٹائر ہو رہے ہیں اور سرکاری پارٹی کے چیف بھی جا رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ صرف باقی وقت پورا کر رہے ہیں؟