لاہور (رپورٹ: میاں علی افضل سے) الیکشن کے قریب آنے پر ملک بھر کی طرح این اے123میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ این اے 123نوازشریف کے دیوانوں کے حلقے کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کے مخالفوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا، یہ واحد حلقہ ہے جس میں مشرف کے مارشل لاءکے دوران مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جاوید ہاشمی جیل میں بیٹھ کر ایم این اے منتحب ہوئے جبکہ پرویز ملک حلقے کے رہائشی نہ ہونے کے باوجود صرف مسلم لیگ (ن) ٹکٹ ملنے پر کامیاب ہوئے 1997 ،1993ءمیں بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اس حلقے سے الیکشن جیتے، شمالی لاہور کے علاقوں پر مشتمل این اے 123میںآرائیں برادری کی تعداد زیادہ ہونے پرزیادہ تر آرائیں امیدواروں کو ٹکٹ ملا، آئندہ انتخابات میں اس حلقے سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے الیکشن لڑنے کی اطلاعات ہیں جبکہ مشرف دور میں مظالم کا شکار، ناجائز مقدمات کا سامنا کرنے اور علاقہ بدر ہونیوالے حلقے کے پرانے لیگی کارکن قربانیاں دینے کے باوجود اپنے قائد کی محبت سے محروم ہیں اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں حلقے سے باہر رہنے والوں کو نوازے جانے کی روایت پر شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حاجی عزیز الرحمان چن اور تحریک انصاف کی جانب سے میاں حامد معراج کو سامنے لانے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کے میاں حامد معراج کے والد میاں معراج الدین اس حلقے کے پرانے سیاسی کھلاڑی رہے ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے رہا جبکہ مشرف کے مارشل لاءکے بعد وہ میاں اظہر کے ہمراہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ 2010ءکے ضمنی انتحابات میں میاں حامد معراج ناراض لیگی کارکنوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے میں کامیاب رہے اور الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پرویز ملک کے مقابلے میں 9 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے جو تحریک انصاف کی اس حلقے میں ماضی کے مقابلے میں سب سے بڑی کامیابی رہی، حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ 1988ءمیں بے نظیر بھٹو یہاں سے کامیاب ہوئیں تاہم سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور طارق باندے بھی اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کی جانب سے الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے میاں عمر حیات، میاں وحید اور طارق عزیز کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جماعت اسلامی کا بھی ووٹ بینک موجود ہے اور میاں شوکت جماعت اسلامی کے امیدوار ہونگے۔ حلقہ میں کل ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 88 ہزار کے قریب ہے۔