سائیں نذیر کی باتیں برائیلر.... مناہل اور خلیل

ایک مدت بعد اس بار گاو¿ں گیا تو حسبِ روایت سائیں نذیر کے ڈیرے پر بھی چکر لگا، ہلکی ہلکی رِم جھم کی پھوار میں جب میں ان کی کٹیا میں داخل ہوا تو ان کی کُٹیا کے عین درمیان ”مچ“ جوبن پر تھا اور اس میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ مچ کے آس پاس چند اور لوگ بھی دکھائی دیئے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے سائیں جی کی صحت اور طبیعت کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے ”شکر ہے اس ذات کا جو گھڑی سکون سے گزر جائے غنیمت ہے، اب تو ہر طرف ایک بے سکونی اور عدم اطمینان کا دور ہے۔ لوگ کسی حال میں راضی نہیں ہوتے، عجیب ”بھاجڑ“ سی پڑی ہوئی ہے ہر کسی کو .... لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے ان کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی سوال کر دیا۔ فرمایا ”اصل میں انسان فطری طور پر ناشکرا ہے، کبھی کسی ایک مقام پر ٹھہرتا نہیں۔ خواہشوں کی گٹھڑیاں سروں پر اٹھائے ہم ”کُبےّ“ ہو جاتے ہیں لیکن گٹھڑی کم نہیں کرتے، کچھ ہماری روزمرہ کی خوراک اور عادات نے بھی ہمیں اندر سے ”ادھ موا“ سا کر دیا ہے۔ ہم نے اپنے جسموں کو کاہل بنا دیا ہے تن آسانی کی دیمک نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ پیدل چلنا یا ہاتھوں سے کوئی کام کرنا پڑ جائے تو ہماری سانس پھولنے لگتی ہیں۔ اوپر سے کھانے پینے کی ہر شے میں ملاوٹ ہے، ہر کام میں ”دو نمبری“ عروج پر ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل ہم یہی گفتگو کر رہے تھے۔ یہ اپنے ماسٹر رمضان صاحب بتا رہے تھے کہ مرغیوں کی خوراک کے لئے جو فیڈز تیار کی جاتی ہے اس میں مردہ ڈنگروں کی آنتیں، خون اور چربی تک استعمال میں لائی جاتی ہے۔ یہی چربی ہماری بعض دواو¿ں میں بھی استعمال ہوتی ہے اب ایسی خوراک کھانے والے کُکڑ جب ہماری غذا کا حصہ بنیں گے تو خود سوچ لو کیا نتائج نکلیں گے۔ کیوں ماسٹر جی! یہی بتایا ہے ناں آپ نے؟
جی سائیں جی! بالکل ہر شے میں ملاوٹ عام ہے قریب بیٹھے ماسٹر رمضان نے سائیں جی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ”اور تو اور سائیں جی! اب تو دودھ دوہنے والے، بالٹی میں خشک دودھ (پوڈر) ڈال لیتے ہیں بعض سنگھاڑے کا کوئی پوڈر بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ دودھ گاڑھا نظر آئے۔ پھر اس سے دیسی گھی بھی تیار کر لیا جاتا ہے کوئی ایک شے ہو تو بتاو¿ں سائیں جی! ”دوا دارُو“ سے لے کر مِرچ مصالحے تک میں ملاوٹ کا بازار گرم ہے۔“
ماسٹر جی شاید کچھ اور بھی بیان کرتے کہ اچانک سائیں جی مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ”آپ سائیں جی! کوئی شہر کی ”نویں تازہ“ ہم گاو¿ں کے لوگوں کے پاس تو سبھی پرانی اور سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔“
البتہ کبھی کبھی یہ نوجوان باو¿ رشید یا آپ جیسا کوئی اللہ کا بندہ آ جاتا ہے اور ہماری معلومات میں اضافہ کر جاتا ہے۔ میں نے باو¿ رشید کی طرف دیکھا تو اُس نے اپنا تعارف کرایا اور بولا کہ وہ قائداعظم یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور گاو¿ں آئے تو سائیں جی سے ضرور ملنے آتا ہے۔
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد بات گھوم پھر کر سیاست پر آ گئی۔ میں نے سائیں جی سے گاو¿ں والوں اور آنے والے انتخابات کے حوالے سے پوچھا تو کہنے لگے: ”گاو¿ں کے لوگ بتاتے رہتے ہیں کہ ”ووٹیں“ قریب ہیں اگلے روز فرید ترکھان بتا رہا تھا کہ کسی سیاسی پارٹی نے اس کی بیٹی کو سکول میں ملازمت دلوائی ہے اور وہ بہت خوش ہے اور آنے والے ووٹوں میں اسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔“ ماسٹر رمضان نے بتایا کہ گاو¿ں میں ان دنوں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے سال پہلے مرے ہوئے لوگوں کی فاتحہ خوانی کے لئے حاضریاں دے رہے ہیں۔ ہر پارٹی کسی نہ کسی طرح لوگوں کے دل جیتنے کی فکر میں ہے مگر ان ہتھکنڈوں سے انتخابات جیتنا مشکل ہے کہ لوگ اب بہت سیانے ہیں۔ مہنگائی، بجلی گیس اور بدامنی کے سبب عوام غصے میں ہیں۔سائیں جی نے ماسٹر جی کی باتیں سن کر کہا: ”وہ تو ٹھیک ہے ماسٹر جی! عوام غصے میں تو ہیں پر سیانے کوئی نئیں۔ برائیلر کھا کھا کر وہ خود بھی برائیلر ہوگئے ہیں۔ مجھے تو لگتاہے کہ انتخابات سے پہلے حساب کتاب نہ شروع ہو جائے ہر کوئی چاہتا ہے بھی یہی ہے کہ ملک اور قوم کا سرمایا لوٹنے والوں کو الٹا لٹکا کر ان سے پائی پائی کا حساب لیا جائے۔ حرام کھانے والوں کو اقتدار کا چسکا پڑ جائے تو وہ مزید عقل سے عاری ہو جاتے ہیں اور چسکا تو کسی بھی شے کا کوئی چنگی چیز تو نہیں ہوتا، کیوں باو¿ رشید وہ تم آج کیا بتارہے تھے کسی ٹی وی ڈرامے کے بارے میں.... سائیں جی نے رشید کو گفتگو میں شریک کر لیا۔
رشید دھیرے سے مسکرایا اور پھر کسی ٹی وی چینل پرچلنے والے ڈرامے ”مناہل اور خلیل“ (جواب عشق ممنوع) کے بارے میں بتانے لگا کہ ہر کوئی اس ڈرامے کے خلاف بات کرتا ہے لیکن خود کوئی قسط بھی نہیں چھوڑتا۔ سُنا ہے کئی مشہور سیاستدان بھی ”مناہل“ کا ڈرامہ شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ گھریلو خواتین گھر کے کام جلدی ختم کر کے اور بچوں کو سُلا کر ڈرامے میں محو ہو جاتی ہیں۔ میں نے کہا مجھے تو یہ علم نہیں کہ کون کون ہے سیاستدان اور وزراء”مناہل“ دیکھتے ہیں البتہ مصر کی طرح پاکستان میں بھی قدرے بولڈ موضوعات پر مبنی ترکی اور انڈین ڈراموں کو شوق سے دیکھا جا رہا ہے۔ سائیں جی چسکے کی بات کر رہے تھے تو وہ بات بالکل بجا ہے کہ ہماری خوراک ہمارے مزاج پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور انسان کو چسکا ہلاک کر رہاہے۔ رات دن ٹی وی آن رہتا ہے۔ انٹرنیٹ ، موبائل فون سروس اور ٹی وی نے انسان کو اندر سے اکیلا اور بے حس کر دیا ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں....
ابھی باتیں جاری تھیں کہ اذان سنائی دینے لگی اور پھر کچھ دیر سائیں جی کی محفل برخاست ہوگئی۔

ای پیپر دی نیشن