سپریم کورٹ نے سانحہ کیرانی میں ایجنسیوں کی غفلت پر سیکرٹری دفاع اور داخلہ سے جواب طلب کرلیا. پورے ملک میں شیعہ برادری سراپا احتجاج اور زندگی مفلوج ہے. لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ چیف جسٹس

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ہزارہ برادری کے قتل عام پر ازخود نوٹس کی سماعت کی. عدالت نے اپنے عبوری حکم میں کہا کہ اسپیشل برانچ، سی آئی ڈی،کرائم برانچ، آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی اورایف آئی یو کی موجودگی میں ہزارہ برادری پر دو حملے ہوئے. بادی النظر میں ایجنسیوں نے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتی یا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات فراہم نہیں کی گئیں. عدالتی حکم میں کہا گیا کہ کارروائی میں واٹرٹینکر استعمال کیا گیا جس میں آٹھ سو سے ایک ہزار کلو گرام بارودی مواد تھا. جبکہ صوبے میں ایف سی کو پولیس کے اختیارات بھی حاصل ہیں. عدالت نے ایجنسیوں کی غفلت پر سیکرٹری دفاع اور داخلہ سےآج ہی جواب طلب کرلیا ہے۔ سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے ،پورے ملک میں شیعہ برادری سراپا احتجاج ہے اور زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے. کیا یہی حکومت کی کارکردگی ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہورہی. انہوں نے استفسار کیا کہ پہلے بھی دھماکہ ہوا کتنے لوگ پکڑے گئے. اس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب دیا کہ آج ایک کارروائی ہوئی جس میں چار افراد مارے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سو ،سوا سو لاشیں پڑی ہیں کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، عدالت اپنی حدود سے کراس نہیں کرے گی اور وفاقی حکومت کو بلوچستان میں فوج بلانے کا حکم نہیں دے گے۔ اس موقع پر طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ صوبے میں آرٹیکل دوسو پینتالیس لاگو کیا جائے، جمہوریت بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی. جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت سورہی ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو ختم کردیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیاحکومت ختم ہونے سے مسائل کے حل ملتےہیں. آپ سمجھتے ہیں کہ شاہراہ دستورپر چار پانچ عمارتوں میں بیٹھ کر حکومت ہوتی ہے. ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج ہو گئی ہے جس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ ایف آئی آر کس طرح کٹی ہے ہمیں پتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن