غداری کیس میں مشرف کی خصوصی عدالت میں پیشی اور ان پر فردجرم مؤخر …… انصاف کی عملداری کیلئے اب گیند عدلیہ کی کورٹ میں ہے

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف گزشتہ روز غداری کیس میں سخت حفاظتی انتظامات میں خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو گئے تاہم انکے وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض کے باعث ان پر فردجرم عائد نہ ہو سکی۔ دوران سماعت انکے وکیل انور منصور خان نے فاضل عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا چونکہ ابھی فاضل عدالت نے مشرف کی جانب سے دائر کردہ اس درخواست کا فیصلہ نہیں کیا‘ جس میں اس کیس کی سماعت کیلئے فاضل عدالت کے دائرہ‘ اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے اس لئے اس درخواست کے فیصلہ تک مشرف پر فردِجرم عائد نہیں کی جا سکتی‘ فاضل عدالت نے اس پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس کیس میں عدالت کے دائرہ اختیار کے بارے میں مشرف کی دائر کردہ درخواست کا جمعۃ المبارک کو فیصلہ سنا دیا جائیگا۔ عدالتی کارروائی کے بعد مشرف اے ایف آئی سی میں واپس چلے گئے۔ انہیں جی ایچ کیو کارڈیالوجی ہسپتال سے منگل کے روز حفاظتی گارڈ کے ایک قافلے کے ساتھ لایا گیا اور عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ قبل ازیں جب وہ عدالت آنے کیلئے گاڑی میں بیٹھے تو ایس ایس پی اسلام آباد نے ان کیلئے سکیورٹی ٹیک اوور سے انکار کر دیا جبکہ اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ نے اصرار کیا کہ پہلے ہمیں لکھ کر دیا جائے کہ مشرف کو کون اور کہاں لے جا رہا ہے۔ اس موقع پر فاضل عدالت نے کیس کے پراسیکیوٹر محمداکرم شیخ کی استدعا پر اس معاملہ کا نوٹس لیا اور کمرۂ عدالت میں موجود وزارت داخلہ کے نمائندے کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ پولیس حکام کو مشرف کو عدالت میں لانے کا حکم دیں‘ اس عدالتی حکم کے تحت مشرف کی گزشتہ روز عدالت میں پیشی ممکن ہوئی تاہم انکی آمد اور روانگی کے دوران انہیں سخت حفاظتی تحویل میں رکھا گیا اور میڈیا کو انکے قریب نہ پہنچنے دیا گیا۔ مشرف کی کمرۂ عدالت میں آمد کے بعد جب خصوصی عدالت کے فاضل ارکان عدالتی کارروائی کے آغاز کیلئے کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے تو مشرف بھی انکے احترام میں اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ کیس کی سماعت کے بعد مشرف کے وکلاء نے میڈیا سے بات چیت کے دوران باور کرایا کہ مشرف نے عدالت میں پیش ہو کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور انہیں عدالت میں پیش ہونے میں کوئی عار نہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت آئین سے غداری کا یہ کیس انکے 3؍ نومبر 2007ء کے ماورائے آئین اقدام کیخلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کیا گیا ہے جس کی گزشتہ سال دسمبر کے آخری ہفتے سے خصوصی عدالت میں سماعت جاری ہے۔ عدالت کی جانب سے فردجرم عائد کرنے کیلئے مشرف کو جنوری کے پہلے ہفتے میں عدالت کے روبرو طلب کیا گیا تھا مگر اس کیس میں 21 پیشیاں پڑنے کے باوجود مشرف عدالت میں پیش نہ ہوئے اور انکے وکلاء تاخیری حربے اختیار کرتے رہے جبکہ خود مشرف بھی اس کیس کی چوتھی تاریخ پیشی پر عدالت آتے آتے راستے ہی میں عارضۂ قلب کے باعث ملٹری ہسپتال کے کارڈیالوجی یونٹ میں جا پہنچے اور اس وقت سے اب تک وہ وہیں مقیم ہیں۔ اس دوران عدالتی حکم پر اے ایف آئی سی کے دو الگ الگ میڈیکل بورڈوں کی جانب سے مشرف کی طبی رپورٹیں عدالت میں پیش کی گئیں۔ پہلی رپورٹ میںانکے عارضۂ قلب کی تصدیق نہ کی گئی اور انہیں محض ذہنی دبائو کا شکار قرار دیا گیا جبکہ دوسری رپورٹ میں انکے عارضۂ قلب کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مشرف اپنے عارضۂ قلب کا ملک سے باہر علاج کرانا چاہتے ہیں جبکہ مریض کو انکی مرضی کے مطابق علاج کرانے کا حق حاصل ہے تاہم فاضل عدالت نے انکی دونوں میڈیکل رپورٹوں میں ظاہر کی گئی انکے مرض کی نوعیت کی بنیاد پر رولنگ دی کہ ان کا ملک کے اندر ہی علاج ممکن ہے۔ اس بنیاد پر ہی عدالت کی جانب سے مشرف کو ہدایت کی گئی کہ وہ عدالت میں پیش ہو جائیں‘ بصورت دیگر انکے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائینگے۔ ان عدالتی احکام کی روشنی میں مشرف گزشتہ روز عدالت کے روبرو پیش ہو گئے جو آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری کے حوالے سے بلاشبہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ مشرف اگرچہ پہلے بھی دوسرے مقدمات میں متعلقہ عدالتوں کے روبرو پیش ہوتے رہے ہیں اور اپنے خلاف دائر تین دوسرے مقدمات میں انہوں نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر ہی اپنی ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرائی تھی اس لئے غداری کیس میں انکی عدالت کے روبرو پیش نہ ہونے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر تھی جبکہ وہ خود بااصرار یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ ملک میں رہ کر اپنے خلاف دائر ہر مقدمے کا دفاع کرینگے اس لئے انہیں غداری کیس میں بھی اپنے کہے کی بہرصورت لاج رکھنی چاہیے۔ اب اس کیس میں بھی انکی عدالت میں پیشی سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے عدالت میں پیش نہ ہونے کی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلی ہے تاہم اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ کی جانب سے انہیں عدالت میں پیشی کیلئے پولیس کی تحویل میں دینے سے انکار اور پھر انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ عدالت بھجوانے کے اقدامات اور اسی طرح عدالتی کارروائی کے بعد مشرف کی دوبارہ اے ایف آئی سی میں ہی واپسی سے بعض حلقوں میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ انہیں کسی کے ایماء پر عدالتی کارروائی سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ابھی چونکہ متعلقہ خصوصی عدالت نے مشرف غداری کیس کے حوالے سے اپنے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرنا ہے اس لئے اس کیس کے میرٹ پر کسی قسم کی رائے کا اظہار مناسب نہیں تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ کسی جرنیلی آمر کے ماورائے آئین اقدام کیخلاف حکومت نے خود آئین کی دفعہ 6 کو بروئے کار لا کر یہ کیس دائر کیا جس کی سماعت کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے چاروں ہائیکورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے خصوصی عدالت تشکیل دی چنانچہ اس تناظر میں ہی آئینی‘ قانونی اور عدالتی حلقوں کی جانب سے اس امر کا تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اس کیس کو بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ یہ تصور باطل ثابت ہو سکے کہ آئین میں دفعہ 6 موجود ہونے کے باوجود آئین توڑنے اور کسی جمہوری نظام کی ماورائے آئین اقدام کے تحت بساط لپیٹنے والے کسی جرنیلی آمر کو آج تک سزا نہیں مل سکی تو آئندہ بھی نہیں مل پائے گی۔ اس تناظر میں مشرف غداری کیس حکومت کے علاوہ عدلیہ کیلئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے جبکہ یہ کیس دائر ہی مشرف کے 3؍ نومبر 2007ء کے اس اقدام کیخلاف ہوا ہے جس کے تحت انہوں نے ملک میں پی سی او اور ہنگامی حالات نافذ کرکے پوری عدلیہ کو گھر بھجوادیا تھا اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو گھروں میں نظربند کرادیا تھا۔ حکومت نے تو یہ کیس دائر کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے جبکہ حکومت اس کیس میں عدالت کی معاونت کیلئے بھی پرعزم ہے جس کی جانب سے اب تک ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ وہ مشرف کیخلاف دائر اس کیس کی پیروی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ چنانچہ آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری کرانے کے پابند دیگر اداروں کی جانب سے بھی اس کیس میں عدالت کے معاون کا کردار ہی سامنے آنا چاہیے اور اس کیس کی سماعت کے کسی بھی مرحلے پر ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے کہ کوئی ریاستی ادارہ مشرف کیخلاف دائر اس کیس کی سماعت کے حق میں نہیں ہے۔ ماضی میں آئین‘ قانون اور سسٹم کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا رہا ہے‘ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی اس کا ازالہ اور آئندہ کیلئے کوئی ماورائے آئین اقدام نہ ہونے دینے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور پختہ کرنا ہے تو پھر ہر شخص اور ہر ادارے کو خود کو قانون کے تابع کرنا پڑیگا اور یہ روایت اسی صورت مستحکم ہو سکتی ہے جب آئین کے تحت قائم کسی سسٹم اور آئین کو سبوتاژ کرنے کے جرم میں ملوث کسی شخص کو‘ چاہے وہ جو بھی ہو‘ قانون و انصاف کے کٹہرے میں لاکر کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
مشرف غداری کیس میں اب تک مشرف اور انکے وکلاء کی جانب سے جو بھی تاخیری حربے اختیار کئے گئے‘ وہ اس کیس کو زور زبردستی کی بنیاد پر چلنے نہ دینے کی ہی غمازی کرتے رہے ہیں تاہم اب مشرف عدالت میں پیش ہو گئے ہیں اور انکے وکلاء بھی اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ مشرف قانون و آئین کی عملداری اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اس لئے اب بال عدلیہ کی اپنی کورٹ میں ہے کہ وہ اس کیس کو کس انداز میں چلانا چاہتی ہے۔ تاہم اب یہ تاثر ہمیشہ کیلئے ختم ہو جانا چاہیے کہ قانون اور آئین کے سرکشوں اور ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوری آئینی حکومتوں کا تختہ الٹنے والوں کیخلاف ماضی میں کوئی کارروائی عمل میں لانے کی کسی کو جرأت نہیں ہو سکی تھی تو اب بھی کسی میں ایسی کوئی جرأت نہیں ہے۔ مشرف غداری کیس کے فیصلہ سے جہاں ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی کا تصور پختہ ہو گا‘ وہیں سسٹم کے استحکام کی بھی بنیاد پڑ جائیگی اور پوری قوم اسی تناظر میں مشرف غداری کیس کے فیصلہ کی منتظر ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...