امن‘ دوستی اور تجارت اچھی چیز ہے اور اچھی ہمسائیگی خطے میں امن کی ضمانت بھی ہے۔ قائداعظم نے تقسیم ہند کے وقت‘ پاک بھارت اچھی ہمسائیگی کیلئے امریکہ کینیڈا کی مثال دی اور کہا کہ خطے میں امن کی ضمانت جنگ کیلئے تیار بھی رہنا ہے۔ امن برابری کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے یہ چھوٹا یا بڑا بھائی بن کر نہیں آتا اگر معاملات میں چھوٹا یا بڑا پن آ جائے تو بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے پاکستان اور بھارت نظریاتی تاریخ حامل ملک ہیں۔ مسلمان جہاں بھی گئے۔ رچ بس گئے اور اسلام تبلیغی مذہب ہے جس کے باعث مقامی غیر مسلم جوق درجوق مسلمان ہوئے۔ اس وقت غیرعرب اسلام کے زیادہ محافظ اور معاون ہیں۔ ہندو قوم نے مسلم اقتدار کے خاتمے کے ساتھ مسلم قوم کو ’’پدرم سلطان بورد کے مکرو عمل میں ڈال ہندو رسم و رواج اور نمود و نمائش کا رسیا بنا دیا اور قیام پاکستان سے قبل مسلم عوام کی اکثریت ہندو ساہوکاروں کی مغروضی تھی نہرو نے جاگیردار نظام ختم کرنے کے بہانے مالدار مسلمان زمیندار کو محتاج اور تنگدست کر دیا۔ نیز ہندو نے انگریز کی اسلام دشمنی صہیونی پالیسی کے تحت مسلم آبادی میں لگنے والی صنعتیں (انڈسٹری) مغربی و مشرقی پاکستان کے بجائے ہندو اکثریتی علاقوں مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال میں لگائیں تاکہ کارخانوں کے مزدور (لیبر) بھی ہندو پھر کسی مسلمان کو معاشی فائدہ نہ پہنچے۔آج بھارت نے پاکستان کے دوستی‘ تجارت اور امن کی دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے اس دوستی کی کامیابی کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں لاہور‘ کراچی وغیرہ میں بھارتی صنعتی میلہ لگتا ہے۔ پچھلے لاہور بھارتی میلہ میں بھارتی دکاندار نے پاکستانی خریدار کو 18 قیراط کا سونا 24 قیراط کہہ کر بیجا نیز بگڑے ہوئے مالدار پاکستانی تاجروں اور حکام کیلئے رقص و سرور کیلئے ثقافتی طائفے ساٹھ لائے جو مخصوص مطلوبہ پاکستانی طبقے سے روابط قائم اور مضبوط رکھنے میں کام آتے ہیں۔ پاک بھارت سرحدی تجارت کا حال یہ ہے کہ بھارتی ٹرک سادہ چٹ لے کر کلیئر ہو جاتے ہیں اور پاکستانی تاجروں کے ٹرک بھارتی سرحد پر کئی کئی دن کھڑے رہتے ہیں کیونکہ مال کی کلیرنس کے دفاتر اور لیبارٹریز کلکتہ جیسے دور دراز علاقوں میں ہے۔ لہذا پاکستان کا عام تاجر بھارت سے تجارت کا سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ بھارتی ٹرکوں سے ناقص بھی فوری کلیر ہونا ہے کیونکہ بھارتی سرمایہ دار نے پاک بھارت کیلئے پاکستان کے اندر فوری عملدرآمد کیلئے مختلف سرکاری و نیم سرکاری ادارے بنا رکھے ہیں نیز بھارتی معاشرہ اور معیشت سرمایہ دارانہ ہے اور پاکستان میں سرمایہ دار طبقے کے ساتھ مل کر تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیز اگر بھارتی سرمایہ دار و سرمایہ کار پاکستان میں رسوخ حاصل کرتے ہیں تو پاکستان کی معیشت میں مزید ابتری کا شکار ہو گی۔ باہمی تجارت اچھی ہے مگر یہ قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر اصول و ضوابط کیمطابق نیز بھارت کی کشمیر پالیسی‘ آبی جارحیت ‘ بلوچستان سندھ‘ سرحد اور افغانستان میں میں پاک دشمن سرگرمیوں کے شواہد موجود ہیں اور بھارت پاکستان سے معاشی و تجارتی مفاد اور امن کا راگ الاپنے کے سوا کسی مذکورہ اہم مسئلے پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ پاک بھارت کا حجم بھارت کے حق میں ہے اگر پاکستان 70 کروڑ ڈالر کا سال بھارت کو بھیجا ہے تو بھارت 7 ارب کا مال پاکستان میں بھیجتا ہے جس سے قوی خدشہ ہے کہ پاکستان رفتہ رفتہ بھارت کی تجارتی منڈی بن جائے گا اور ہماری محدود صنعت و تجارت بھی سقوط ڈھاکہ کی طرح بھارت بنگلہ تجارتی معاہدہ کے باعث بھارتی مال کا صارف اڈہ بن جائے گا۔ لہذا پاکستان کے محب وطن سرکار کو پاک بھارت تجارتی استعمال کومذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہئے اور بھارت کو فوری مفاد کی حدود میں رکھا جائے یاد رہے کہ بھارت پاک افغان تجارتی راہداری معاہدے کے ذریعے بھی بڑا تجارتی شراکت دار ہے پاک بھارت بھارت تعلقات اور تجارتی میں پاکستان کی معیشت ‘ سیاست اور طاقت بحال رہنا چاہئے اور قوت رعایت سے زیادہ حقیقت اور حقائق استوار ہونا چاہئے۔ پاکستانی سرکار بھارتی تجارتی میلے کوجشن کا رنگ دیتی ہے۔ مگر جب نام نہاد پاکستانی تجارتی میلہ بھارت میں لگتا ہے تو پاکستانی تاجر کیلئے وغیرہ رکاوٹ‘ تکلیف دہ تفتیشی مراحل حوصلہ شکن ہوتے ہیں۔ لہذا امن‘ دوستی‘ تجارت اور اچھی ہمسائیگی اچھی ہے مگر سب کچھ برابری کی بنیاد پر ہونا چاہئے اور پاکستان کو سب سے پہلے اپنی صنعتی ساکھ بحال کرانا چاہئے جس کیلئے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔