’بے کار‘ ارکان اسمبلی اور پلکیں جھپکاتا آئین

ہمارے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی منقولہ جائیدادوں کے بارے میں جو ٹیکس گوشوارے داخل کئے ہیں ان میں درج گوشواری اعدادو شمار پوری قوم کی اخلاقی گوشمالی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یہ بدگوش قوم ہمیشہ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یہ سمجھتی رہی ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی کروڑ پتی لوگ کہیں اور اسی سبب برس ہا برس سے ’’سیاسی دودھ پتی کا لطف لے رہے ہیں ۔ حکومتی ٹیکس ڈائریکٹری میں شائع شدہ حقائق، کی گوش گزاری پر ہر گوش بر آواز شخص یہ سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت در حقیقت گوشہ افلاس میں زندگی بسر کر رہی ہے اور اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی حسب معمول عوامی گوشمالی میں مصروف رہی تو ہمارے ارکان اسمبلی آئندہ گوشواروں کی طلبی پر بہ زبان مفلسی یہ شعر پڑھتے ہوئے دکھائی دے سکے ہیں۔
اے صباء کیا پوچھتی ہے تو شعاع مہر کو
گوش گل پر صبح دم یہ گوشوارہ ہو نہ ہو
آپ گوش بر آواز ہوں تو ہم ٹیکس گوشواروں کے کچھ حقائق گوش گزار کئے دیتے ہیں ارکان پارلیمنٹ سے دس لاکھ روپے سے زائد منقولہ اثاثہ جات کی تفصیل مانگی گئی تھی۔ تاریخ میں پہلی بار شائع ہونے والی اس ٹیکس ڈائریکٹری میں شائع شدہ اعدادو شمار کے مطابق سینٹ کے 86 ارکان کے پاس نہ تو اپنی کار ہے، نہ مکان ہے، نہ بنک اکائونٹ، نہ کسی کاروباری میں حصہ ہے۔ نہ ان کی بیگمات اور زیر کفالت اولاد طلائی زیورات کی مالک ہے۔ اب آئیے قومی اسمبلی کی طرف قومی اسمبلی کے ایک سو ارکان نے سرے سے گوشوارے جمع ہی نہیں کروائے۔ 449 ممبران قومی اسمبلی کے گوشواروں سے پتہ چلتا ہے کہ یا تو یہ حضرات ٹیکس نادہندہ ہیں یا پھر انہوں نے زیرو ٹیکس کی رپورٹ جمع کروائی ہے۔ قومی اسمبلی کی 62 خواتین ارکان نے لکھا ہے کہ وہ اپنی ذاتی کار ، طلائی زیورات، کاروباری حصص، سیونگ سرٹیفیکیٹس ، بانڈز یا گھریلو آسائشی سامان کی مالک نہیں ہیں۔ اور ان کی کل منقولہ جائیدار 10 لاکھ روپے سے کم ہے۔ ان باسٹھ خواتین میں محترمہ ذکیہ شاہنواز، عظمی زاہد بخاری، ڈاکٹر نجمہ افضل خان، ڈاکٹر فرزانہ نذیر اور ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا جیسی خواتین شامل ہیں جو نئی نویلی چمکتی لشکتی کاروں سفر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کاروں کو ملازم ڈرائیور چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے گھروں کی وسعت اور آرائش دیکھنے اور منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔
اب آئیے قومی اسمبلیوں کے ارکان کی خستہ حالی پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ سندھ صوبائی اسمبلی کے 153 ممبروں سے صرف ایک خرم شیرزمان نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس 10 لاکھ روپے سے زائد مالیتی ذاتی کار، نقدی، طلائی زیورات وغیرہ ہیں باقی ایک سو باون ارکان نے ذاتی کار، بینک بیلنس ، نقدی ، جیولری، کاروباری حصص، سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ کے مطلوبہ مالیت کا حامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی 22 خواتین ارکان نے بھی لکھا ہے کہ ان کی جیولری ، نقدی، بینک بیلنس، کاروباری حصص، گھریلو آسائشی سامان، ائیر کنڈیشنر اور ریفریجریٹر وغیرہ کی کل مالیت دس لاکھ سے کم ہے۔ ان مفلس خواتین میں مہتاب اکبر راشدی، ریحانہ لغاری اور شرمیلا فاروقی جیسی خواتین شامل ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی ،ایک زمانے میں جب ان کے گھر کی تلاشی لی گئی تھی تو صرف کپڑوں والی الماری سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے تھے۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی کے 97 میں 95 ارکان نے اپنی مفلسی کا پردہ چاک کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس بھی کار، طلائی زیورات، نقدی ، بینک بیلنس، کاروباری حصص یا سیونگ سرٹیفیکٹس نہیں ہیں اور جو کچھ ہے اس کی مالیت دس لاکھ روپے سے کم ہے بارہ پختون خاتون ارکان ایسی ہیں جن کے پاس نہ ذاتی کار ہے نہ بینک بیلنس، نہ قابل ٹیکس نقدی یا جیولری ہے۔ یہی حال بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ارکان کا ہے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی واحد اسمبلی ہے کہ جس کے ارکان نے مالی غیرت مندی کا کچھ مظاہرہ کیا ہے۔ پنجاب کے 353 ارکان اسمبلی میں سے 345 نے اپنے منقولہ اثاثے دس لاکھ روپے سے زائد ظاہر کئے ہیں۔ ارکان پنجاب اسمبلی کی مالی غیرت مندی اور باقی ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کی افلاسی غیرت میں تضاد حیران کن ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں بھی اپنے دوسرے پارلیمانی بھائیوں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے تھا۔ ہم نے بھی بعد افسوس اس سوال پر غور کیا کہ …ع
اے کشتہ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا
مختصر یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1172 ممبران میں سے جن 1072 ارکان نے گوشوارے جمع کروائے ہیں ان میں سے بھی 47 فیصدی ٹیکس نادہندگان ہیں صرف سات ارکان پارلیمنٹ نے اپنی دولت کی لاج رکھتے ہوئے ایک ایک کروڑ روپے سے زائد ٹیکس ادائیگی کے ثبوت دئیے ہیں۔ قانون کے پروفیسر نصیر چودھری نے یہ اعدادوشمار دیکھے تو معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے بولے کہ ہم تو تمام ارکان پارلیمنٹ کو کروڑ پتی سمجھتے تھے یہ تو خود کو ہمارے جیسا عام آدمی ظاہر کر رہے ہیں مگر افسوس کوئی بھی عام آدمی ان اعدادو شمار کو سچ ماننے پر تیار نہیں ہو گا۔ بلکہ عام آدمی تو رہا ایک طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی حیرت سے پلکیں جھپکا جھپکا کر ان اعدادو شمار کو دیکھ رہا ہو گا۔ ہم نے جوابی مسکراہٹ کے ساتھ عرض کیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 تو یہ اعدادو شمار دیکھ کر پلکیں جھپکانا بھی بھول گئے ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن