خادم علی کھوکھر قصور
تسنیم کوثر بیوہ اکرم شیخ نے پولیس تھانہ سرائے مغل میں مقدمہ درج کروایا کہ وہ لاہورکینٹ کی رہائشی ہے ۔ شوہر کی وفات کے بعد میں پریشانیوں میں مبتلا ہوگئی ۔ میں دم دعا کے لئے پہلے بابا یٰسین سکنہ ڈنگی پورہ بھٹہ گوریانوالہ قصور کے پاس دم کروانے آتی تھی ۔کچھ عرصہ کے بعد بابا یٰسین نے مجھے کہاکہ آپ بڑے بابا جی سائیں طفیل کے پاس جایا کریں ۔ اس کے بعد میں سائیں طفیل کے پاس جانے لگی ۔ سائلہ بڑے بابا سائیں طفیل سکنہ پھولنگر کو بزرگ ولی اللہ سمجھتی اور اکثر ان سے دعا کروانے پھولنگر جاتی ۔ میری عقید ت کی انتہاتھی کہ میں نے سائیں طفیل کی فرمائش پر اس کے بیٹے اسد کو موبائل فون ، گاڑی ، موٹر سائیکل لے کر دی ۔ دو ماہ کا سائیں طفیل کے گھر کا کرایہ اور لنگر شریف کیلئے 42000/- روپے ماہانہ دیتی رہی ۔ مورخہ 21.04.2013 کو سائلہ اپنے اکلوتے بیٹے 26 سالہ عدنا ن کے ہمراہ سائیں محمدطفیل کے پاس اپنی پریشانیوں کے حل کے لئے دعا کروانے گئی ۔ میں نے سائیں محمد طفیل سے ٹائم لینے کے لئے اسے فون کیا تو اس نے کہا کہ میں ہیڈ بلوکی جارہا ہوں ۔ آپ دعا کروانے ہیڈ بلوکی دریا کنارے آجائیں ۔ وہاں حضرت خضرحیات کا فیض حاصل ہوگا۔ چنانچہ میں اپنی گاڑی VIT2 رجسٹریشن نمبر LE-4247 پر ہیڈ بلوکی چلی گئی ۔ وہاں پر سائیں محمد طفیل بھی آگیا ۔ ا س کی فرنٹ سیٹ پر ایک شخص اختر علی ساکن ڈھول نواز نزد تھانہ ملتان روڈ تحصیل پتوکی بیٹھا ہوا تھا۔ اختر علی سائیں طفیل کے پاس بیٹھا رہتا۔میں اس کوجانتی ہوں ۔ سائیں طفیل کے ہمراہ کھاناکھانے میرے گھر بھی آتا رہا۔ اختر علی سائیں طفیل کا قریبی ساتھی ہے ۔ سائیں طفیل کی گاڑی سے اختر علی اتر گیا اور سائیں طفیل نے مجھے اور میرے بیٹے کو گاڑی میں بٹھا لیا ۔ ہم مٹھائی لیکر گئے ہوئے تھے ۔ سائیں طفیل نے میرے لئے گاڑی میں دعا کی اور دم کیا اور میرے بیٹے کو کہا کہ کچھ مٹھائی باہر لیجا کر لوگوں میں تقسیم کر دو اور کچھ تبرک حضرت خضرحیات کیلئے پانی میں بہادو۔ اس دوران اخترعلی سائیں طفیل کی گاڑی کے پاس کچھ فاصلے پر مشکوک انداز میںگھومتا رہا اور مسلسل فون پر کسی سے باتیں کرتارہا ۔ میر ا بیٹا سائیں طفیل کی گاڑی سے اتر کر باہر مٹھائی تقسیم کرنے گیا لیکن واپس نہ آیا ۔ جب کافی وقت گزر گیا تو مجھے تشویش ہوئی ۔ اختر نے ریسکیو 1122 پرفون کیا ۔ میں وہاں دو دن تک بیٹھی رہی ۔پانی میں شک کی بنا پر تلاشی ہوتی رہی لیکن میر ابیٹا نہیں ملا ۔ا ختر علی کا گائوں ہیڈبلوکی سے چار کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ۔ بیٹے کی گمشدگی کے بعد میںنے سائیں طفیل سے کہاکہ مجھے اختر علی پر شک ہے لیکن سائیں طفیل نے مجھے اختر علی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنے دی اور مسلسل اختر علی کی وکالت کر تا رہا۔ اس دوران میرے گھر پر فون نمبر ز0333-4759463 اور فون نمبر 0335-2542314 سے فون آئے ۔ اگلے روز فون نمبر 0335-1072615 سے فون آیا ۔ فون کرنے والا بات نہیں کرتا ۔ جن نمبر ز پر فون آئے وہ میری بیٹیوں کے نمبرز ہیں جو صرف میرے بیٹے کو معلوم ہیں ۔ا ختر علی کے گائوں سے من سائلہ نے پوری معلومات لی ہیں ۔ اس کی شہرت اچھی نہ ہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میرے بیٹے کو کوئی جانی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔
ڈی پی او قصور جواد قمر نے بتایا کہ اس وقوعے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اس مقدمہ کی تفتیش پولیس تھانہ سرائے مغل کے سب انسپکٹر خورشید احمد نے کی جس نے موقع ملاحظہ کیا ۔ گواہان کے بیانات زیر دفعہ 161 ض ف قلمبند کئے ۔ اس دوران مدعیہ نے اپنے تتمہ بیان میںبحوالہ ضمنی نمبر 2 میں گواہان چشم دید ممتا زخاں ولد فتح محمد قوم اعوان سکنہ ڈیوس روڈ لاہور ، قمر عباس ولد ہیتم خاں قوم راجپوت سکنہ بورے والا ضلع وہاڑی تحریر کروائے اور ملزمان مسمیان غلام عباس عرف اسد ولد سائیں طفیل ، بابا یٰسین ڈنگی پورہ بھٹہ گوریانوالہ قصور کو نامزد کیا ۔ بحوالہ ضمنی دو ملزمان اخترعلی اورغلام عباس عرف اسد علی کو حسب گرفتار کرکے ریمانڈ جسمانی حاصل کرکے تفتیش عمل میں لائی گئی ۔ اس دوران ملزمان سائیں طفیل اور یٰسین نے ایڈیشنل سیشن جج پتوکی سے اپنی عبوری ضمانتیںکروالیں ۔ دو ملزمان اختر علی اور غلام عباس عرف اسد کو مورخہ 01.06.2013 کو حوالات جوڈیشل بجھوایا گیا۔ ملزمان بابایٰسین اور سائیں طفیل کی عبوری ضمانتیں مورخہ 10.06.13 کو ایڈیشنل سیشن جج پتوکی سے منسوخ ہوئیں ۔ جس پر ملزمان نے13.06.2013 کواپنی عبوری ضمانت مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار عدالت عالیہ لاہور سے مورخہ 26.06.2013 تک کروائیں ۔ دونوں ملزمان کے خلاف کسی قسم کا ثبوت قابل گرفتار ی میسر نہ آنے پر انہوںنے اپنی عبوری ضمانت مورخہ 26.06.2013 کو واپس لے لیں ۔ مقدمہ کا چالان عدالت مجاز میں بھجوا دیا گیا ۔ اس کے بعد اس مقدمہ کی تفتیش 03.08.2013 کو حسب الحکم ایڈیشنل آئی جی پنجاب لاہور تبدیل ہوکر جہانزیب نذیر احمد خاں ایس پی ریجنل انویسٹی گیشن برانچ شیخوپور ریجن لاہو رکے سپر دہو گئی ۔ جنہوںنے مثل مقدمہ بعد تکمیل تفتیش واپس بجھوائی اور تحریر کیا کہ سائیں محمد طفیل کا بروز وقوعہ مدعیہ اور اس کے بیٹے کو ہیڈ بلوکی پر نہر اور دریا کے کنارے بلوا کر مدعیہ کے بیٹے کو اول مٹھائی نہر میں پھنکنے کے لئے بھیجا اور پھر اس کے اپنے گھر یلو مسائل پر مبنی کاغذ کا ٹکڑ انہر میں پھینکنے کے لئے بھیجا تھا حالانکہ کے مدعیہ کے بقول اس کا بیٹاپانی سے بہت خوف کھاتا تھا ۔ لہذ ا یہ تمام تر امور سائیں طفیل ملزم مذکور کے کردار کو مشکوک کرتے ہیں ۔ نیز جب تک مدعیہ کا مغوی بیٹا عدنان اکرم بازیاب نہ ہوا اس وقت تک مقدمہ ہذا میں کسی ملزم کی بے گناہی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔ لہذا مقامی پولیس کی طرف سے ملزمان کو بے گنا ہ کرنا درست نہیں ہے ۔ اندریں حالات مثل مقدمہ ہذا اس ہدایت کے ساتھ واپس تھانہ بھجوائی جارہی ہے کہ DPO قصور ایک سپیشل ٹیم تشکیل دیں جو مقدمہ ہذا میں جو ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوئے انہیں حسب ضابطہ گرفتار کرکے ان سے از سرنو انیٹروگیشن کرے نیز مدعیہ کا بیٹا عدنان مغوی مقدمہ ہذا جس حالت میں بھی ہو اسکی بازیابی کویقینی بنائیں اور مقدمہ کو یکسو کریں ۔جس پر مورخہ 21.11.2013 کوDPO قصور جواد قمر نے نے مغوی عدنا ن اکرم کی بازیابی کیلئے ایک سپیشل ٹیم تشکیل دی ۔ سائیں محمد طفیل کو مقدمہ ہذا میں حسب ضابطہ گرفتار کرکے ریمانڈ واپسی جسم حاصل کیا گیا ہے ۔ سپیشل انٹیروگیشن ٹیم کی تفتیش میں ملزم سائیں طفیل گناہگار پایا گیا جس کو جیل بھجوا دیا گیا، پولیس مغوی کی بازیابی کے لئے سر توڑ کوشش کررہی ہے ۔
بیوہ خاتون تسنیم کوثر نے بتایا کہاکہ ایک مرتبہ سائیں طفیل لاہور میں اس کے گھر آیا اور کہا کہ اپنی ایم بی بی ایس کی طالبہ بیٹی کا رشتہ اس کے بیٹے کے لیے دے دو اور اس کی بیٹی کا رشتہ اپنے سی اے کے طالب علم اکلوتے بیٹے عدنان کے لیے لے لو جس سے اس نے صاف انکار کر دیا۔اس کے علاوہ اس کا بیٹا عدنان دم درد کروانے کے عوض سائیں طفیل پر لاکھوں روپیہ لٹانے اور آپس میں رشتے کرنے کے سخت خلاف تھا ۔ اور اس طرح جعلی پیر سائیں طفیل عدنان کو ہم سے اپنے مزید مالی مفادات حاصل کرنے اور آپس میں رشتے کرنے میں رکاوٹ سمجھنے لگا ۔ اور یہ رنج اس نے اپنے دل میں رکھا اور اسے اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے اس نے اس کے بیٹے کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے اغوا کروا دیا۔جو آج تک بازیا ب نہ ہو سکا ہے جو کہ ابھی تک اسی کے قبضہ میں ہے ۔اس نے وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے اپیل کی کہ اس جعلی پیر کے قبضہ سے اس کے اکلوتے بیٹے کو برآمد کیا جائے۔ سپیشل انٹیروگیشن ٹیم نے بتایا کہ دوران انٹیروگیشن اس جعلی پیر ملزم سائیں طفیل کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں ۔ یہ کہ جعلی پیر ملزم سائیں طفیل نے قرآن مجید بھی نہیں پڑھا ہوا۔اس کو چھ کلمے۔آیتہ الکرسی۔دعائے قنوت۔نماز وغیرہ بھی صحیح طرح نہیں آتی اور اسے اسلام کے دیگر بنیادی ارکان اور عقائد اور ان کی ادائیگی کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں ۔ وہ محض پیری مریدی کا ڈھونگ رچا کر عرصہ دراز سے سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا کر اور ان کی مجبوریوں اور پریشانیوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا ۔ڈی پی او قصور جواد قمر نے بتایا کہ ملزم جعلی پیر سائیں طفیل جیسے کردار ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہیں، جعلی پیروں کے بارے میں فوری طور پر اطلاع پولیس کو بھی دیں تا کہ ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جا سکے ۔
جعلی پیر کے قبضہ سے اکلوتے بیٹے کو بازیاب کرایا جائے: بیوہ کی فریاد
Feb 19, 2014