لاہور (احسان شوکت سے) چوہر ٹاؤن میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد کے بہیمانہ طریقے سے قتل کی لرزہ خیز واردات پر پولیس کا فرانزک و پوسٹ مارٹم رپورٹس اور ٹھوس شواہد کے بغیر عجلت میں ہلاک ہونے والے بھائی کو ملزم قرار دینے سے شکوک و شبہات کے علاوہ بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ پولیس نے اس واقعہ کے پتا چلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ہلاک ہونے والے کینسر کے مریض نذیر کو ذہنی مریض اور جنونی قرار دے کر سارا ملبہ اس پر ڈال کر 8 افراد کے قتل کا سنگین کیس حل کر لیا۔ حالانکہ نہ تو ہلاک ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس سامنے آئی تھیں اور نہ ہی فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے موقع سے اکٹھے کئے گئے خون، مقتولین کے گوشت، سفید سفوف، کھانے پینے کی اشیاء اور زیر استعمال پین اور دیگر اشیاء کی فرانزک رپورٹس حاصل کی گئی ہیں۔ پولیس کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی تھی کہ گھر میں موجود تمام افراد کی ہلاکت اور کوئی عینی شاہد اور گواہ نہ ہونے کے باوجود پولیس نے واقعہ میں مرنے والے شخص کو ہی ذمہ دار قرار دے دیا۔ پولیس نے 3 بجے واقعہ کا پتا چل جانے کے باوجود نعشوں کو 5 گھنٹے تک پوسٹ مارٹم کے لئے ڈیڈ ہاؤس منتقل نہ کیا بلکہ گھر میں تمام افراد کا داخلہ بند کر کے قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن عبدالرب اندر نعشوں کے پاس موجود رہے اور 5 گھنٹے بعد متوفی نذیر کو ملزم قرار دے کر اس کیس کی فائل کلوز کر دی گئی اور معاملہ حل ہونے کے بعد نعشوں کو رات 8 بجے ڈیڈ ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ مقتول خاندان پڑھا لکھا خاندان تھا جن میں امریکہ پلٹ بھائی کے علاوہ ایک بھائی واجد کمبوہ ایڈووکیٹ بھی ہے۔ پولیس نے ان ورثاء سے مقدمہ کے اندراج کے لئے درخواست کی بجائے ان کے بھائی نذیر کو ہی ذہنی پریشانی کے ہاتھوں اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر معاملہ ٹھپ کرنے کی کوشش کی۔ کیا پولیس نے نذیر کو ملزم قرار دینے سے پہلے کسی ماہر نفسیات یا نذیر کے ڈاکٹر سے رائے لی کہ نذیر ایسی حرکت کا مرتکب ہو سکتا ہے یا نہیں؟۔ پولیس نے کسی سائنسی خطوط پر تفتیش کے بغیر اور کسی ٹھوس ثبوت و شہادت کے بغیر نذیر کو ملزم قرار دے تو دیا ہے مگر اس سے پولیس کارکردگی اور اس کیس کو حل کرنے کے حوالے سے ذہنوں میں بہت سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے اور یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ پولیس کی ماضی کی کارکردگی دیکھیں تو وہ تو سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج کے باوجود مغلپورہ زیادتی بچی کیس کے ملزمان تاحال گرفتار نہیں کر سکی ہے شبہ ہے کہ پولیس نے اپنی جان چھڑانے اور جھنجھٹ میں پھنسنے سے بچنے کے لئے یہ معاملہ عجلت میں نپٹا دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فرانزک لیبارٹری کی رپورٹس اور پوسٹ مارٹم رپورٹس و دیگر شواہد آنے پر اس کیس کے ملزم کا اعلان کیا جائے۔