لاہور (نامہ نگار) جوہر ٹائون کے ایک گھر میں نجی یونیورسٹی کے پروفیسر، اسکے 2 بھائیوں سمیت ایک خاندان کے 8 افراد کو ہتھوڑے مار کر قتل کردیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ نجی یونیورسٹی میں پڑھانے والا پروفیسر 40 سالہ زاہد اقبال کمبوہ اپنے بھائی 38 سالہ شاہد اقبال کمبوہ جو کہ کنٹریکٹر تھا اور تیسرے بھائی 43 سالہ نذیر اقبال، بیوی نسیم زاہد، 8 سالہ بیٹی آمنہ زاہد، بھائی 32 سالہ فرزانہ شاہد، 10 سالہ بھتیجے آفاق شاہد اور 6 سالہ بھتیجی اریبہ کے ساتھ گزشتہ رات گھر میں موجود تھا کہ نامعلوم افراد نے آدھی رات کو گھر میں گھس کر خون کی ہولی کھیلی اور فرار ہوگئے۔ واردات کا اگلے روز سہ پہر 3 بجے اس وقت پتہ چلا جب زاہد کا ماموں ذیشان جس کا جوہر ٹائون میں ہی جنرل سٹور ہے، گوجرانوالہ میں رشتہ دار کی شادی کا دعوت نامہ دینے آیا اور کافی دیر گھر کے باہر کھڑا بیل دیتا رہا مگر جواب نہ ملا جس پر اس نے پولیس بلائی۔ پولیس ساتھ والے گھر کے راستے گھر میں داخل ہوئی۔ گھر کی نچلی منزل پر شاہد اقبال، اسکی بیوی فرزانہ، بیٹے آفاق بیٹی اریبہ، بالائی منزل پر زاہد اقبال، اسکی بیوی نسیم اور بیٹی آمنہ کے علاوہ نذیر کی نعش دوسرے بیڈ پر پڑی تھی۔ نعشوں کے پاس سفید کیمیکل بھی پڑا ملا۔ پولیس کے مطابق نامعلوم افراد نے ان افراد کو بیہوش کرنے کے بعد ہتھوڑوں کے اندھا دھند وار کرکے مارا یہاں تک کہ بعض کے چہرے مسخ ہوگئے۔ پولیس نے نعشوں کو پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کیا اور رات گئے زاہد اور شاہد کے بھائی واجد کمبوہ ایڈووکیٹ کی مدعیت میں نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔ واقعہ کی خبر ملتے ہی سینکڑوں افراد گھر کے باہر جمع ہوگئے۔ علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہا۔ سی سی پی او شفیق گجر نے جائے وقوعہ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ جس بیدردی سے ان افراد کو قتل کیا گیا یہ انتقامی کارروائی لگتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید بھی علاقے میں پہنچے اور مقتولین کے ورثا سے تعزیت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ملزموں کو فوری گرفتار کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بھی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے قتل ہونیوالے افرد کے ورثا سے اظہار افسوس کیا۔ ادھر پولیس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں رات گئے دعویٰ کیا گیا کہ شاہد اور زاہد کے بھائی کینسر کے مریض نذیر عمران نے امونیا گیس کے ساتھ سب کو ختم کیا اور پھر خودکشی کر لی۔ پولیس حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ نذیر نامی شخص کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں اور آلہ قتل ہتھوڑا بھی اسکی نعش کے پاس سے ملا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ نذیر عمران کیمیکل انجینئر تھا، اس نے پہلے خود امونیا گیس تیار کر کے سب کو بیہوش کیا، گھر سے نشہ آور گولیاں، امونیا کیمیکل، آلہ قتل، ہتھورا اور سوا بھی برآمد ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ نذیر نے کیمیکل تیار کرکے سب کو پہلے بے ہوش کیا، گزشتہ کئی سالوں سے قرضے میں ڈوبا تھا اور اسکی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ نذیر کے جسم پر کوئی نشان نہیں ملا۔ نذیر کینسر کی بیماری اور 43 سال عمر ہو جانے کے باوجود شادی نہ ہونے پر نفسیاتی دبائو کا شکار تھا۔ وہ کینسر کا علاج کرانے کیلئے چند ماہ سے لاہور میں اپنے بھائیوں کے پاس آ کر ٹھہرا ہوا تھا۔